لی نا کی جیت کے بعد ٹینس میں بھی چین کا چرچا
5 جون 2011ہفتہ کو کھیلا گیا مقابلہ ایک گھنٹہ 48 منٹ تک جاری رہا، جس میں لی نا نے 6-4 اور 7-6 سے کامیابی سمیٹی۔ چین میں برسر اقتدار کمیونسٹ پارٹی کے اخبار نے اتوار کو غیر روایتی انداز میں صفحہء اول پر لی نا کی جیت کی خبر شائع کی ہے۔ اس جیت کو بالعموم ایشیا اور بالخصوص چین میں ٹینس کے نئے باب کے آغاز سے تعبیر کیا گیا ہے۔ انگریزی زبان کے سرکاری اخبار چائنا ڈیلی نے بھی اس 29 سالہ چینی ٹینس سٹار کی جیت کو نمایاں کوریج دی ہے۔ انٹرنیٹ پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کروڑوں چینی شہری لی نا کی جیت کو اپنا موضوع بنائے ہوئے ہیں۔
لی نا اس اعتبار سے بھی دیگر چینی کھلاڑیوں سے الگ ہیں کہ وہ ریاستی سرپرستی میں نہیں کھیلتی۔ انہوں نے اپنا راستہ خود چُنا ہے اور حکومتی ٹینس فیڈریشن سے خودمختار ہوکر کھیلتی ہیں۔ ان کی اس جیت سے چین میں ٹینس کی مقبولیت اور معیار بڑھنے کی قوی امید کی جارہی ہے۔ چین میں اب تک ٹینس کو امراء کا کھیل تصور کیا جاتا ہے۔ باسکٹ بال، ٹیبل ٹینس اور فٹ بال جیسے کھیلوں کے مقابلے میں اس کی مقبولیت بہت کم ہے۔
لی نا نے 2002ء میں ٹینس چھوڑ کر صحافت کی تعلیم پر توجہ دینا شروع کر دی تھی۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ بہت اچھا نہیں کھیلتیں۔ لی نا کا کہنا ہے کہ اُس وقت ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن وہ فرنچ اوپن جیسا گرینڈ سلیم ٹورنامنٹ جیت جائیں گی۔
شکست خوردہ فرانسیسکا شیاوونے نے لی نا کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ دونوں سیٹس میں بہترین معیار کی ٹینس کھیلتی رہیں۔ لی نا اب ومبلڈن مقابلوں میں شرکت کی تیاریاں کر رہی ہیں لیکن وہ اس سے قبل کچھ دن مکمل آرام کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: امتیاز احمد