لیباریٹری میں مصنوعی زندگی تخلیق کرنے کا دعویٰ
8 جون 2010امریکی سائنسدان کریگ وَینٹر کا نام اب تک اُس پہلی شخصیت کے طور پر مشہور تھا، جس نے سن 2002 ء میں انسان کے بنیادی حیاتیاتی مادے میں استعمال ہونے والی تقریباً تمام تر اکائیوں کا پتہ چلا لیا تھا۔ اب لگتا ہے کہ اُنہیں ایک اور انقلابی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اُن کا اور اُن کے ساتھی سائنسدانوں کی ٹیم کا دعویٰ ہے کہ وہ مصنوعی زندگی تخلیق کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے ایک ایسا بیکٹیریا تخلیق کیا ہے، جس کے اندر موجود تولیدی مادہ مصنوعی طور پر تیار کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر کریگ وَینٹر بتاتے ہیں:’’یہ ہمارے سیارے پر خود بخود نشو و نما پانے والی پہلی ایسی مخلوق ہے، جس کا ماں با پ ایک کمپیوٹر ہے۔‘‘
ڈاکٹر وَینٹر کی ٹیم نے مائیکوپلازما مائی کوائیڈز (Mycoplasma mycoids) نامی ایک ایسا بیکٹیریا لیا، جو عام طور پر بکریوں میں پایا جاتا ہے اور اُن میں پھیپھڑوں کی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ اِس ٹیم نے برسوں کی محنت کے نتیجے میں اِس بیکٹیریا کی تیاری میں استعمال ہونے والی ایک ملین بنیادی اکائیوں کا ایک ایک کر کے سراغ لگایا۔ پھر ایک ایک کر کے اِن اکائیوں کو دوبارہ اُسی ترتیب سے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا اور اِس تولیدی مادے کو بیکٹیریا کی ایک ملتی جُلتی قسم مائیکو پلازما کیپری کولَم (Mycoplasma capricolum) میں داخل کر دیا۔ باقی کا سارا کام اِس دوسرے بیکٹریا نے سرانجام دیا اور خَلیے خود بخود ایک سے دو اور دو سے چار ہو کر نمو پانے لگے۔
لیکن یہ سارا عمل ہوا کیسے، اِس کا پتہ ظاہر ہے، سائنسدانوں کو نہیں چل سکا۔ گویا اِن سائنسدانوں نے مردہ جسم کو زندہ میں تبدیل نہیں کیا بلکہ بالآخر ایک زندہ جسم کو ہی اپنے تیار کردہ تولیدی مادے کی بڑھوتری کے لئے استعمال کیا۔ سوال لیکن یہ ہے کہ اِس شعبے میں تحقیق کا آخر مقصد کیا ہے؟
وَینٹر کے ایک ساتھی سائنسدان ڈاکٹر جان گلاس کہتے ہیں:’’ایسے بہت سے نامیاتی اجسام ہیں، جو اپنے اندر پائی جانے والی خصوصیات کی بناء پر ممکنہ طور پر صنعت، دوا سازی کے شعبے اور ماحول کے لئے مفید ثابت ہو سکتے ہیں تاہم اُنہیں تیار کرنے کے لئے مطلوبہ جینیاتی عناصر ہمارے پاس نہیں ہیں۔ جس نامیاتی جسم کے ساتھ ہم کام کر رہے ہیں، اُس کے لئے ہمیں جینیاتی عناصر کی سرے سے ضرورت ہی نہیں۔ اِس طرح کا کام ہمیں اِس قابل بنائے گا کہ ہم نِت نئی دُنیاؤں کا کھوج لگا سکیں اور بڑی بڑی چیزیں دریافت کر سکیں۔‘‘
برکلے کی کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ڈاکٹر جان ڈِیُوبر اِس دریافت کو ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایک سنگِ میل قرار دیتے ہیں تاہم اُن کے خیال میں ابھی اِس شعبے میں ہونے والی تحقیق کو کئی چیلنجز درپیش ہیں:’’ڈی این اے کو کس طرح سے ترتیب دیتے ہوئے مطلوبہ اثرات اور نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں، یہ ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے اور کم از کم آنے والے عشروں کے دوران مصنوعی حیات پر تجربات کرنے والے ماہرینِ حیاتیات اور دیگر بائیالوجسٹس، دونوں طرح کے محققین کو ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہو گا۔‘‘
کریگ وَینٹر کو اپنی تحقیق پر کی جانے والی تنقید کی کوئی پروا نہیں ہے اور وہ مصنوعی زندگی تخلیق کرنے کے منصوبوں پر کام جاری رکھتے ہوئے جلد ایسی مصنوعی کائی تیار کرنا چاہتے ہیں، جو تیل پیدا کر سکتی ہو، ایسے بیکٹیریا تخلیق کرنا چاہتے ہیں، جو ہوا میں سے ضرر رساں گیسوں کو فِلٹر کرنے اور پانی کو ضرر رساں مادوں سے پاک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: مقبول ملک