لیبیا سے لوٹنے والے پاکستانیوں کی پریشان کن داستانیں
1 مارچ 2011لیبیا سے آنے والے پاکستانیوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ طرابلس سمیت لیبیا کے مختلف علاقوں میں حالات بہت خراب ہو چکے ہیں۔ کئی شہروں میں لوٹ مار اور قتل وغارت گری کا سلسلہ جاری ہے۔
ہر طرف خوف اور پریشانی کا سماں ہے۔ ان کے مطابق پاکستانی سفارت خانے کا یہ بیان کہ لیبیا میں تمام پاکستانی محفوظ ہیں درست نہیں ہے۔ لیبیا میں موجود کئی پاکستانیوں کو لوٹ مار اور تشدد کا سامنا ہے اور وہ کسمپرسی کی حالت میں حکومتی مدد کا انتظار کر رہے ہیں۔
ترکی کی ایک تعمیراتی کمپنی میں کام کرنے والے جو پاکستانی غیر سرکاری کوششوں کے نتیجے میں لاہور پہنچے ہیں، ان میں سمندری کے رہائشی عاصم ندیم بھی شامل ہیں۔ اکتالیس سالہ عاصم ندیم نے بتایا کہ طرابلس میں انسانی جانیں محفوظ نہیں ہیں۔ لوگوں کو مارا جا رہا ہے غیر ملکیوں سے گن پوائنٹ پر موبائل اور پرس چھینے جا رہے ہیں اور قانون ہاتھ میں لینے والوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
پاکپتن کےنذرفرید نے بتایا کہ ان کی کمپنی نےایک ہفتہ پہلے ہی ان کو حالات کی سنگینی سے آگاہ کرتے ہوئے فیکٹری کی حدود سے باہر جانے سے منع کر دیا تھا۔ ان کے مطابق ہم باہر جا کر ٹیلیفون بھی نہیں کر سکتے تھے۔’’ ہم کئی دن تک ایک کمرے میں محصور رہے، باہر حالات کافی خراب تھے۔ چھ دنوں بعد ہمیں ائیرپورٹ لے جانے کیلئے باہر نکالا گیا تو راستے میں ہم نے کئی ٹینکوں کو جاتے دیکھا۔‘‘ ان کے مطابق بہت سے سویلین شہری بھی ہاتھوں میں اسلحہ لئےطرابلس کی سڑکوں پر پھرتے نظر آئے۔
انہوں نے بتایا کہ بن غازی کے علاقے میں کئی پاکستانیوں کے گھر جلا دیے گئے ہیں۔ بن غازی میں رہائش پذیر ایک پاکستانی لڑکے نے انہیں ٹیلیفون پر بتایا کہ اس کا تمام سامان لوٹ لیا گیا ہے اوراسے تین دن سے کھانے کو کچھ نہیں مل سکا ہے۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ کے محمد رشید نے بتایا کہ پاکستانی حکومت اپنے شہریوں کو لیبیا سے بحفاظت نکالنے کیلئے کچھ نہیں کر رہی۔ ان کے مطابق ہم نے بڑی مشکل میں وقت گزارا۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہم زندہ سلامت اپنے بچوں کے پاس لوٹ آئے ہیں۔ تاہم محمد رشید کو اس بات کا دکھ تھا کہ اس نے محنت مزدوری کر کے دو سال میں جو سامان خریدا تھا وہ سارا اس سے لوٹ لیا گیا تھا۔
محمد رشید نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ فیکٹری میں کام بند ہونے کے بعد کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ حالات کب تک خراب رہیں گے، اس لیے محدود راشن کی وجہ سے مزدوروں کو تین وقت دیا جانے والا کھانا کم کر دیا گیا اور انہیں دو وقت کا کھانا ملتا رہا۔ محمد رشید کہتے ہیں کہ آئندہ زندگی میں وہ روکھی سوکھی کھا لیں گے لیکن کبھی ملازمت کے سلسلے میں لیبیا نہیں جائیں گے۔
ان کے مطابق اب بھی طرابلس ائیرپورٹ پر بہت بڑی تعداد میں لوگ ٹکٹوں کی آس لیے لیبیا چھوڑنے کے منتظر ہیں۔ ان مسافروں کے پاس وسائل بھی کم ہیں اور ان پر لاٹھی چارج بھی ہوتا ہے۔ ان کے مطابق انہوں نے ائیرپورٹ پر دو دن گزارے اس دوران انہیں گولیوں کی آوازیں واضح طور پر سنائی دیتی رہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ لیبیا میں کچھ لوگ صدر قذافی کے حامی بھی ہیں لیکن ان کےبقول زیادہ تر لوگ صدر قذافی کے مخالف ہیں۔
انجینئر سید حارث علی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ لاہور پہنچنے والے تمام پاکستانی شہری SBFA نامی ایک تعمیراتی کمپنی کے ملازم تھے جوطرابلس سے چالیس کلو میٹر دور گھروں کی تعمیر کے ایک منصوبے پر کام کر رہے تھے۔ ان کے مطابق ان تمام پاکستانیوں کو ان کی کمپنی میں اپنے خرچے پر چارٹرڈ طیاروں کے ذریعے لیبیا سے باہر نکالا ہے۔ ان کے بقول اب بھی ہزاروں پاکستانی لیبیا میں موجود ہیں۔
خانیوال کے رہنے والے خضرحیات نامی ایک پاکستانی نے بتایا لیبیا میں انہیں ہر وقت اپنی جان کا خطرہ لگا رہتا تھا۔ ان کے مطابق وہاں کوئی نہیں جانتا کہ اگلے لمحے کیا ہونے والا ہے۔ ان کے بقول طرابلس میں پاکستانی سفارت خانہ اپنے شہریوں کےلیےکچھ نہیں کر رہا ہے۔
یاد رہے لیبیا سے وطن واپس آنے والے پاکستانیوں کے خیالات نے حکومتی دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی حکومت اپنے شہریوں کی بحفاظت وطن واپسی کے لیے خصوصی اقدامات کر رہی ہے۔
رپورٹ:تنویر شہزاد،لاہور
ادارت:عصمت جبیں