لیبیا: مزید حکومتی عہدیدار قذافی کو چھوڑ رہے ہیں، الجزیرہ کا دعویٰ
1 اپریل 2011وزیرِ خارجہ موسیٰ قصیٰ گزشتہ روز تیونس سے ہوتے ہوئے برطانیہ پہنچ گئے تھے، جہاں بعض اطلاعات کے مطابق انہوں نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ برطانوی حکومت اور امریکہ نے موسیٰ قصیٰ کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا تھا۔ اب الجزیرہ ٹی وی نے دعویٰ کیا ہے کہ دیگر کئی حکومتی عہدیدار بھی لیبیا چھوڑ کر تیونس کا رخ کر رہے ہیں۔
عرب ٹیلی وژن چینل الجزیرہ کے مطابق لیبیا کی نیشنل آئل کارپوریشن کے چیئرمین شکری غنیم بھی قذافی کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں۔ تاہم غنیم نے ایسی خبروں کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ ابھی تک اپنے عہدے پر فائز ہیں اور انہوں نے معمر قذافی کا ساتھ نہیں چھوڑا ہے۔ تیونس کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ اس ضمن میں ان کے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں۔
الجزیرہ نے لیبیا کے جن اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کا ذکر کیا تھا، ان میں جنرل پیپلز کانگریس کے اسپیکر محمد عبدالقاسم، انٹیلی جنس چیف ابو زید دردا اور یورپی امور سے متعلق سینئر سفارت کار محمد عبدالقاسم العبید کے نام شامل ہیں۔
قذافی کے لیے محفوظ راستہ
دوسری جانب برطانوی اخبار گارڈیئن نے اپنی ایک ویب رپورٹ میں کہا ہے کہ قذافی کے فرزند سیف الاسلام کے قریب ساتھی محمد اسمٰعیل اور برطانوی حکام کے درمیان بات چیت ہوئی ہے۔ اخبار کا دعویٰ ہے کہ یہ مذاکرات قذافی کے لیے اقتدار سے علیحدہ ہو کر جلا وطنی اختیار کر لینے سے متعلق حکمتِ عملی طے کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ برطانوی دفترِ خارجہ نے اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
دریں اثناء برطانوی حکومت نے جمعرات کے روز اس بات کی تردید کی کہ اس نے موسیٰ قصیٰ کو معافی دے دی ہے۔ دوسری جانب برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے لندن میں لیبیا کے سفارت خانے کے پانچ کارکنوں کو ملک سے بےدخل کرنے کے فیصلے کا اعلان کیا ہے۔
قذافی کی عسکری طاقت برقرار ہے، امریکہ
لیبیا میں معمر قذافی کی حامی فورسز کے باغیوں پر حملے جار ی ہیں اور وہ باغیوں کا مشرق کی طرف تعاقب کر رہی ہیں۔ امریکی افواج کے سربراہ ایڈمرل مائیک مولن کا کہنا ہے کہ نیٹو کی فضائی کارروائی کے نتیجے میں قذافی کی عسکری طاقت بیس سے پچیس فیصد تک کمزور ہوئی ہے تاہم اس کا مطالب یہ نہیں کہ قذافی کی عسکری قوت کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔
دریں اثناء ترک وزیرِ اعظم رجب طیب ایردوآن نے برطانیہ میں برطانوی وزیرِ اعظم کیمرون کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مغربی ممالک کی جانب سے لیبیا کے باغیوں کو اسلحہ فراہم کرنا دہشت گردی کے حق میں سودمند ثابت ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب باغیوں کے ترجمان نے اسلحے کی فراہمی سے متعلق باغیوں اور مغربی ممالک کے درمیان بات چیت کو ’کلاسیفائڈ‘ قرار دیا ہے۔
رپورٹ: شامل شمس ⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک