لیبیا: مہاجرین کے اغوا اور تشدد میں ملوث گروہ گرفتار
25 جنوری 2018حالیہ برسوں کے دوران لاکھوں تارکین وطن نے لیبیا کے ساحلوں سے بحیرہ روم کے سمندری راستے اختیار کر کے یورپ کا رخ کیا۔ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے کئی گروہ لیبیا میں سرگرم ہیں۔ سن 2011 میں معمر قذافی کی حکومت ختم ہونے کے بعد سے یہ ملک عدم استحکام کا شکار ہے۔
مزید پڑھیے: جرمنی: پاکستانی تارکین وطن کی اپیلیں بھی مسترد، آخر کیوں؟
مزید پڑھیے: 2017 میں کتنے پاکستانی شہریوں کو جرمنی میں پناہ ملی؟
لیبیا میں مستحکم حکومت نہ ہونے کے سبب اس ملک کے ذریعے ہجرت کرنے والے انسانوں کو روکنے اور انہیں اسمگل کرنے والے جرائم پیشہ گروہوں کو کنٹرول کرنے میں مشکلات بھی پیش آتی ہیں۔ ایسی صورت حال میں لیبیا میں تارکین وطن کے استحصال کی رپورٹیں بھی منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہو جانے والی ایک ویڈیو ایسی بھی تھی جس میں جرائم پیشہ گروہ افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن پر شدید جسمانی تشدد کرتے ہوئے ان کے اہل خانہ سے رقم کا مطالبہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ایسے واقعات لیبیا کے علاوہ ترکی اور یونان میں بھی پیش آ چکے ہیں اور کئی واقعات میں پاکستانی اور افغان تارکین وطن کو اغوا بھی کیا جا چکا ہے۔
لیبیا میں اغوا کے بعد ناقابل برداشت تشدد کا نشانہ بننے والے ان تارکین وطن کا تعلق تاہم افریقی ممالک سے تھا۔ ان افراد کو بعد ازاں رہا کر دیا گیا تاہم شدید جسمانی چوٹوں کے باعث اب بھی یہ آٹھوں تارکین وطن سرت کے ابن سینا ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ سوشل میڈیا پر تشدد کی ویڈیو وائرل ہو جانے کے بعد لیبیائی حکومت کو اغوا کاروں کی گرفتاری کے لیے دباؤ کا سامنا تھا۔
اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ یونٹی گورنمنٹ کے حامی ملیشیا نے دعویٰ کیا ہے کہ ان افریقی تارکین وطن کو اغوا کرنے والے گروہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ سرت میں سرگرم اس ملیشیا نے شہر کو ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجوؤں سے چھڑانے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ حکومتی ملیشیا کے مطابق گرفتار کیے گئے گروہ کے ارکان میں سے پانچ کا تعلق لیبیا اور ایک کا تعلق فلسطین سے ہے۔
گزشتہ برس سی این این نے ایک ایسی ویڈیو جاری کی تھی جس میں لیبیائی شہری افریقی تارکین وطن کو بولی لگا کر خریدتے دیکھے گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد انسانی حقوق کے لیے سرگرم اداروں نے یورپی یونین اور لیبیا کے مابین مہاجرین کو روکنے کے لیے کیے گئے ایک معاہدے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
مزید پڑھیے: پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی اپیلیں، پاکستانی سر فہرست
مزید پڑھیے: دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں