لیبیا میں بھی حکومت مخالف مظاہرے
16 فروری 2011تیونس اور مصر کے کامیاب عوامی انقلابوں کے بعد اب مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں بھی حکومت مخالف مظاہروں میں شدت آتی جا رہی ہے۔ بن غازی میں پولیس حکام نے بتایا کہ لیبیا کے رہنما معمر قذافی کے حامی اور ان کے مخالف مظاہرین کے مابین بھی تصادم ہوا، جہاں سکیورٹی فورسز نے مداخلت کی۔
طبی ذرائع کے مطابق سکیورٹی فورسز کے گیارہ اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق کسی بھی زخمی کی حالت تشویشناک نہیں ہے۔
بن غازی سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق مظاہرین حکومت مخالف نعرے بلند کر رہے تھے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ چالیس برسوں پرمحیط معمر قذافی کی حکمرانی کے دوران پیدا ہونے والی بد عنوانی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ بن غازی کے علاوہ طرابلس اور دیگر اہم شہروں میں بھی مظاہروں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق لیبیا میں گزشتہ روز یہ مظاہرے اس وقت شروع ہوئے جب ایک ایسے وکیل کو گرفتار کیا گیا، جو حکومت کو کھلے عام تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ اگرچہ Fethi Tarbel کو بعد ازاں رہا کر دیا گیا تاہم اس پر وہاں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
بتایا گیا ہے کہ کئی مقامات پر مظاہرین نے پتھراؤ کیا، جس کے جواب میں سکیورٹی اہلکاروں نے انہیں منشتر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل بھی فائر کیے۔ عینی شاہدین کے مطابق بن غازی میں کم ازکم دو ہزار افراد نے حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کی۔
لیبیا کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق ان مظاہروں کے بعد حکومت کے حامی کئی ہزار افراد سڑکوں پر آ گئے اور انہوں نے معمر قذافی کی حمایت میں نعرہ بازی کی۔
دوسری طرف یورپی یونین نے لیبیا کے حکام پر زور دیا ہے کہ وہاں آزادی رائے کا احترام کیا جائے اور مظاہرین کے مطالبات سنے جائیں۔ یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگران عہدیدار کیتھرین ایشٹن کے ترجمان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’آزادی رائے کا احترام کیا جائے اور وہاں مظاہرین اور سول سوسائٹی سے مذاکرات کیے جائیں۔‘
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: مقبول ملک