لیبیا میں فوجی مداخلت کی قیادت نہیں کریں گے: امریکہ
9 مارچ 2011تاہم لیبیا کے حوالے سے ’تمام تر امکانات‘ پر بات چیت کرتے ہوئے اوباما اور کیمرون دونوں ہی نے اس بات پر بھی اصرار کیا کہ کسی بھی طرح کی مداخلت وسیع تر بین الاقوامی حمایت کے ساتھ عمل میں لائی جانی چاہئے۔ اوباما پر ملک کے اندر لیبیا کے اُن باغیوں کی مدد کرنے کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے جو معمر قذافی کے 41 سالہ دورِ اقتدار کے خاتمے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ تاہم اوباما انتظامیہ عراق اور افغانستان کے بعد اب ایک اور تنازعے میں ملوث ہونے سے ہچکچا رہی ہے۔
اوباما اور کیمرون نے جن امکانات پر بات کی، اُن میں جاسوس طیاروں کے ذریعے نگرانی، انسانی امداد، ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی اور نو فلائی زون بھی شامل ہے۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق دونوں رہنماؤں نے اس مشترکہ ہدف پر اتفاق کیا کہ لیبیا میں تشدد اور بے رحمانہ واقعات فوری طور پر رکنے چاہئیں، قذافی کو جلد از جلد اقتدار سے رخصت ہونا چاہئے اور ایک ایسا عبوری ڈھانچہ تشکیل پانا چاہئے، جو لیبیا کے عوام کی امنگوں کی عکاسی کرتا ہو۔
آج بدھ کو وائٹ ہاؤس میں اوباما کے سلامتی کے مُشیروں کا ایک اجلاس منعقد ہونے جا رہا ہے، جس میں اس بات کو جانچا جائے گا کہ قذافی پر دباؤ ڈالنے اور اُسے مستعفی ہونے پر مجبور کرنے کے لیے کون کون سے اقدامات حقیقت پسندانہ ہو سکتے ہیں۔
لیبیا کے اندر قذافی کے وفادار دستے ملک کے مشرقی اور مغربی حصوں میں راکٹوں، ٹینکوں اور طیاروں کے ذریعے باغیوں کے خلاف حملے تیز تر کرتے ہوئے اِس کوشش میں مصروف ہیں کہ بغاوت کو کچل دیا جائے۔
برطانیہ اور فرانس باغیوں پر قذافی کے طیاروں کے حملوں کو روکنے کے لیے ایک نو فلائی زون کے قیام سے متعلق ایک مسودہء قرارداد پر کام کر رہے ہیں۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے وُزرائے دفاع کا اجلاس جمعرات اور جمعے کو منعقد ہونے والا ہے، جس میں لیبیا کے حوالے سے مختلف امکانات کو جانچا جائے گا۔
اِسی دوران امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے تمام ممالک کے درمیان اتفاقِ رائے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ لیبیا کی فضاؤں میں نو فلائی زون کے قیام کا فیصلہ اقوام متحدہ کو کرنا چاہئے۔ برطانوی چینل سکائی نیوز سے باتیں کرتے ہوئے کلنٹن نے کہا:’’میرے خیال میں یہ بات بہت اہم ہے کہ یہ امریکی قیادت میں کی جانے والی کوئی کوشش نہیں ہونی چاہئے کیونکہ یہ کوشش تو لیبیا کے اپنے عوام کی جانب سے ہو رہی ہے۔ یہ کوشش باہر سے نہیں ہو رہی، کسی مغربی طاقت کی جانب سے یا کسی خلیجی ریاست کی طرف سے نہیں ہو رہی کہ ’تمہیں اب ایسا کرنا چاہئے‘۔‘‘
اِسی دوران یورپی یونین کی جانب سے لیبیا کے خلاف ایسی مزید پابندیاں عائد کرنے پر غور کیا جا رہا ہے، جن سے لیبیا کے ریاستی فنڈز اور وہاں کا مرکزی بینک متاثر ہوں گے۔ اٹلی کے دارالحکومت روم میں یورپی یونین کے نمائندوں نے بتایا ہے کہ یہ پابندیاں جمعے سے نافذالعمل ہو جائیں گی۔ ان پابندیوں کا اطلاق لیبیا کی ان کمپنیوں پر ہو گا، جن کے پاس یورپی کاروباری اداروں مثلاً اٹلی کے بینک ’یُونی کریڈٹ‘ کے شیئرز ہیں۔
دریں اثناء لیبیا کے سابق پلاننگ منسٹر محمودجربیل نے، جو لیبیا کے حکومت مخالفین کی قائم کردہ قومی کونسل کے بانی ارکان میں سے ایک ہیں، مطالبہ کیا ہے کہ یورپی یونین اِس کونسل کو جلد از جلد لیبیا کی واحد جائز اتھارٹی تسلیم کر لے۔ محمود جربیل نے یہ بات منگل کو فرانسیسی شہر شٹراس برگ میں یورپی پارلیمان سے اپنے خطاب میں کہی۔ اپنی اِس تقریر میں جربیل نے یورپی یونین سے فوجی امداد کے ساتھ ساتھ اقتصادی، انسانی اور طبی امداد کی بھی اپیل کی۔
یورپی پارلیمان کے ارکان کے ساتھ جربیل کی ملاقات بیلجیئم کے سابق وزیر اعظم گائی فیرہوف شٹٹ کی دعوت پر عمل میں آئی ہے۔ جربیل نے نو فلائی زون کے قیام کی تائید کی تاہم لیبیا کی سرزمین پر غیر ملکی فوجی مداخلت کے امکان کو مسترد کر دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ وہاں کے شہریوں کو محض ایسے وسائل درکار ہیں، جن کی مدد سے وہ اپنی جدوجہد کو خود آگے بڑھا سکیں۔
یورپی پارلیمان کے اراکین کے ساتھ محمود جربیل کی ملاقات کو یورپی یونین کے خارجہ سیاسی شعبے کی سربراہ کیتھرین ایشٹن کے لیے ایک بڑی ناکامی قرار دیا جا رہا ہے، جو اب تک لیبیا کی اپوزیشن کے ساتھ رابطہ نہیں کر سکی ہیں۔ یورپی پارلیمان کے متعدد اراکین نے اِس ناکامی پر ایشٹن کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ کیتھرین ایشٹن آج بدھ کو شٹراس برگ ہی میں لیبیا کی تازہ صورتِ حال پر منعقدہ ایک بحث میں شرکت کریں گی اور اِس موقع پر لیبیا کی اپوزیشن کے نمائندوں سے بھی ملیں گی۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: شامل شمس