1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا پرکرنل القذافی کی حکمرانی کے 40 سال

1 ستمبر 2009

کرنل معمر القذافی آج لیبیا پر اپنی حکمرانی کی چالیسویں سالگرہ منا رہے ہیں۔یکم ستمبر 1969ء کو کرنل القذافی کی طرف سے اس وقت کے حکمران شاہ ادریس کو اقتدار سے علیحدہ کئے جانے کے بعد سے آج تک لیبیا مختلف ادوار سے گزرا ہے۔

https://p.dw.com/p/JNDd
تصویر: AP/Montage DW

کرنل القذافی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے شمالی افریقی ملک لیبیا کے اپنے ہمسایہ ملکوں چاڈ اور تیونس کے ساتھ تعلقات تو کشیدہ رہے ہی، لیکن کرنل القذافی کے اقتدار سنبھالنے سے اس صدی کے آغاز تک مغربی ملکوں کے ساتھ بھی لیبیا کے تعلقات تناؤ کا شکار رہے۔ اِس کی بڑی وجہ تیل سے مالا مال اس ملک کے 1980ء کی دہائی میں سابق سویت یونین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات تھے۔ اس دوران سال 1984ء میں برطانیہ کی طرف سے لیبیا کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کردیے گئے جس کی وجہ لندن میں ایک مظاہرے کے دوران لیبیا کی ایمبیسی سے فائرنگ کئے جانےکے باعث ایک خاتون پولیس افسر کی ہلاکت تھی۔ سال 1986ء میں لیبیا کی جانب سے پہلے ایک امریکی بحری جہاز پر میزائل حملے اور پھر برلن میں ایک کلب میں بم دھماکے کے بعد امریکہ کی طرف سے لیبیا کے دارالحکومت طرابلس اور بن غازی میں کرنل قذافی کی رہائش گاہوں کو فضائی حملوں کانشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں میں چوالیس افراد ہلاک ہوئے، جن میں کرنل معمر القذافی کی لے پالک بیٹی بھی شامل تھیں۔

Flash Galerie Muammar al Gaddafi 40 Jahre Libyen
لیبیا کے سربراہ کرنل معمر القذافی 31 اگست کو افریقن یونین کےسربراہ اجلاس کے موقع پر۔ قذافی افریقن یونین کے چیئرمین بھی ہیں۔تصویر: picture-alliance/dpa

ان حملوں کے بعد دسمبر 1988ء میں ایک امریکی مسافر طیارہ سکاٹ لینڈ کے علاقے لاکربی کے اوپر ایک دھماکے سے تباہ ہوگیا جس سے طیارے میں سوار تمام 259 مسافر ہلاک ہوگئے جن میں سے اکثریت امریکی شہریوں کی تھی۔ اگلے ہی برس ستمبر میں فرانس کی ایک ایئرلائن کا مسافر طیارہ بھی نائیجر کے اوپر فضا میں پھٹ کر تباہ ہوگیا، جس سے 170 افراد ہلاک ہوئے۔ ان دونوں طیاروں کی تباہی کی ذمہ داری لیبیا پر عائد کی گئی۔ لیبیا پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری کا بھی الزام عائد کیا جاتا رہا۔

تاہم سال 2003 ء میں امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ خفیہ مذاکرات کے بعد معمر القذافی کی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی، جب انہوں نے اپنے ایٹمی پروگرام کے اختتام کا اعلان کر دیا۔

اس موقع کو مغربی رہنماؤں نے تاریخی قرار دیا۔ اس وقت کےامریکی صدر جارج ڈبلیوبش نے اس موقع پر کہا:" کرنل معمر القذافی نے سرعام بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری روکنے اور انہیں دنیا کے سامنے لانے کا عزم کا اظہار کیا ہے۔"

جبکہ اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے اس فیصلے کا ان الفاظ سے خیرمقدم کیا: " کرنل معمر القذافی کا یہ دلیرانہ فیصلہ یقیناً تاریخی اہمیت کا حامل ہے اور میں اس کا نہایت پرجوش خیر مقدم کرتا ہوں۔"

آج کرنل معمر القذافی کی حکمرانی کی چالیسویں سالگرہ کی مرکزی تقریب میں کئی افریقی، عرب اور لاطینی امریکی ملکوں کے رہنما شرکت کر رہے ہیں۔ اس تقریب کی خاص بات فوجی پریڈ اور فضائی مظاہروں کے علاوہ رات کے وقت روشنی اور رنگوں کا ایک شو بھی ہے۔

رپورٹ: افسر اعوان

ادارت: امجد علی