1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

140411 Libyen 3 Rebellen

14 اپریل 2011

معمر قذافی کے خلاف مظاہروں کی ابتداء شہر بن غازی سے ہوئی تھی۔ یہی وہ شہر ہے، جہاں ابھی تک شدید مزاحمت جاری ہے اور قذافی کے حریفوں کو بن غازی سے ہی امیدیں بھی وابستہ ہیں۔

https://p.dw.com/p/10tcO
Egyptian protesters wave Libya's old national flag and an Egyptian flag as they demonstrate in the Tahrir square in Cairo, Egypt, Sunday, April 10, 2011. Libyan government forces shot down two U.S.-built helicopters being used by rebel forces in the east of the country, the deputy foreign minister said early on Sunday. The report could not be confirmed with the rebels, but journalists in the area did describe seeing at least one helicopter apparently fighting for the rebels in the area Saturday, though it lacked the distinctive double rotor design of Chinook and appeared to be a Russian built model. (Foto:Khalil Hamra/AP/dapd)
تصویر: dapd

لیبیا میں معمر قذافی کے خلاف بغاوت شروع ہونے کے کچھ دنوں بعد ہی باغیوں نے اپنی ایک عبوری کونسل تشکیل دے دی تھی۔ باغیوں کی نمائندہ اس تنظیم کوسب سے پہلے تسیلم کرنے والا ملک فرانس تھا۔ اس کے بعد کئی دیگر ممالک نے بھی ایسا ہی کیا۔ تاہم سوال یہ ہےکہ لیبیا میں عالمی برادری کی طرف سے جن لوگوں کے ساتھ مذاکرات کیے جا رہے ہیں، وہ کون ہیں؟

لیبیا میں باغیوں کی عبوری کونسل کے نائب صدر عبدالحفیظ روشہ کے خیال میں آج کے باغی لیبیا کے مستقبل کے حوالے سے تمام فیصلے خود کریں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ ہماری ریاست ہمارے تصور، ہمارے اصولوں اور سترہ فروری کوآنے والے انقلاب کی ترجمان ہوگی۔ قذافی کے جانے کے بعد کوئی بھی ہم پر اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتا‘‘۔

A rebel fighter riding on the back of a pickup truck mounted with an anti-aircraft gun flashes the victory sign as they drive towards the town in a counterattack, following an advance by pro-Gadhafi forces, on the outskirts of Ajdabiya, Libya Saturday, April 9, 2011. Government soldiers and rebel gunmen battled in the streets of the key front-line city of Ajdabiya Saturday after the Libyan military used shelling and guerrilla-style tactics to open its most serious push into opposition territory since international airstrikes began. (AP Photo/Ben Curtis)
باغی کونسل کی کوشش ہے کہ ان کے زیر اثر علاقوں میں معمولات زندگی پہلے ہی کر طرح چلتے رہیںتصویر: AP

عبدالحفیظ روشہ بیرون ملک لیبیا کی سیاست کے ایک ترجمان کے طور پربھی دیکھے جا رہے ہیں۔ وہ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ وہ بن غازی میں شہری حقوق کے لیے بھی سرگرم رہے ہیں اور شروع ہی سے باغیوں کی عبوری کونسل سے منسلک ہیں۔ ساتھ ہی وہ اس کونسل کے سربراہ مصطفٰی عبدالجلیل کے ترجمان بھی ہیں۔ مصطفٰی عبدالجلیل قذافی انتظامیہ میں وزیر انصاف بھی رہے ہیں۔ عبوری کونسل کی کوشش ہے کہ باغیوں کے زیر اثر علاقوں میں معمولات زندگی پہلے ہی کی طرح چلتے رہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ شہری اپنے آپ کو محفوظ محسوس کریں، پولیس کا نظام بھی فعال رہے اور قذافی کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کو کوئی پریشانی بھی نہ ہو۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کی نظروں میں لیبیا کے باغیوں کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔ دو ہفتے قبل لیبیا ہی کے موضوع پر لندن میں ہونے والی ایک کانفرنس میں کونسل کے رکن جمعہ الجماعتی نے واضح کر دیا تھا کہ وہ کوئی نیا نظام نہیں لانا چاہتے۔’’ یہ ایک عبوری دور ہے۔ ہم لیبیا کی مستقل حکومت نہیں ہیں۔ ہم اُس وقت تک حکومت میں رہیں گے، جب تک لیبیا کا نیا آئین نافذ العمل نہیں ہو جاتا‘‘۔

Anti-Gaddafi Rebellen klettern am Mittwoch (06.04.2011) in Adschdabija auf einen alten Panzer. Die Truppen vom Machthaber Muammar Al-Gaddafi nähern sich immer wieder bedrohlich der Stadt. Foto: Maurizio Gambarini dpa +++(c) dpa - Bildfunk+++***ACHTUNG: BILD NICHT FÜR CMS-FLASH-GALERIEN BENUTZEN!!!***
ہم عالمی برادری کے تعاون کے بغیر اپنی منزل حاصل نہیں کر سکتے، باغیتصویر: picture alliance/dpa

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے بھی باغیوں کی مدد کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس سے قبل باغی اسی بات پر ناراض تھے کہ نیٹو کی جانب سے ان کے ساتھ تعاون نہ ہونے کے برابر تھا۔ باغیوں کے عبوری کونسل کے بقول عالمی برادری کے بھرپور تعاون کے ساتھ یہ کونسل اپنی وہ منزل حاصل کرسکتی ہے، جس میں معمر قذافی کا کہیں نام و نشان نہیں ہو گا یعنی ایک ’ آزاد اور متحد لیبیا ‘۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت: مقبول ملک