لیبیا کے نئے دستور کے لیے اسمبلی الیکشن پر غور شروع
4 جنوری 2012افریقی ملک لیبیا میں قومی عبوری حکومت امن و سلامتی کے حصول کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے لیکن اس کے باوجود دارالحکومت طرابلس میں مجموعی صورت حال پریشان کن ہے۔ کل منگل کے روز بھی دنگے فساد کو رپورٹ کیا گیا ہے۔ اس خونی وقوعے میں کم از کم چار مسلح افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔ اس جھڑپ میں مسلح گروپوں نے بھاری اسلحے کا بھی استعمال کیا اور اس وقت بھی طرابلس میں خوف و ہراس کی فضا قائم ہے۔ ان خونی فسادات کی وجہ طرابلس میں مسلح گروپوں کی موجودگی ہے۔ عبوری حکومت ابھی تک ان مسلح گروہوں کو واپس ان کے علاقوں کی جانب روانہ کرنے اور انہیں غیر مسلح کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔
لیبیا کی عبوری کونسل کی جانب سے ایک مسودہٴ قانون پیش کیا گیا ہے اور اس کے تحت قانون ساز اسمبلی کے لیے الیکشن کی راہ ہموار کی جائے گی۔ نئے دستور کی تیاری کے لیے دو سو اراکین کی اسمبلی کے لیے الیکشن کو تجویز کیا گیا ہے۔ یہ انتخابات اسی سال جون میں منعقد کروائے جائیں گے۔
تجویز کردہ اس مسودہٴ قانون کے تحت قذافی کے آخری دور تک ان کے حلیف اور حامیوں کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس نئے عبوری قانون کے تحت ان ریسرچرز کی ڈگریاں بے اثر ہو جائیں گی جو قذافی کی گرین بک پر مقالہ لکھ کر حاصل کی گئی تھیں۔ معمر القذافی کی گرین بک ان کے بیالیس سالہ آمرانہ دور میں حکومت سازی کے لیے رہنما کتاب تھی۔
لیبیا کی عبوری کونسل کو سارے ملک میں اداروں کی تشکیل میں کئی مسائل کا سامنا ہے۔ عبوری حکومت اس کوشش میں ہے کہ مصالحتی عمل کو آگے بڑھا کر جمہوری اقدار کو متعارف کروانے کے ساتھ ساتھ ان پر عمل پیرا ہونے کی بھی کوشش کی جائے۔ عبوری حکومت کو مسلح انقلابی گروپوں کو غیر مسلح کرنے میں بھی بہت دقت کا سامنا ہے کیونکہ ان کی موجودگی سے خانہ جنگی کا امکان بڑھ گیا ہے۔
عبوری کونسل جہاں قانون سازی کی جانب توجہ دیے ہوئے ہے وہیں اس نے امن سلامتی کے حصول کے لیے اپنی نئی فوج کے کمانڈر کا اعلان کردیا ہے۔ قذافی کے دور میں خصوصی کمانڈو گروپ کے کمانڈر یوسف منقوش کو لیبیا کی نئی فوج کا پہلا سپہ سالار مقرر کیا گیا ہے۔ لیبیا کی فوج میں اس وقت تمام مسلح انقلابیوں کو شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نئے کمانڈر یوسف منقوش کا منصب سنبھالنے کے بعد فوج کی تشکیل اہم ترین چیلنج ہے۔ منغوش نے دس برس قبل فوج کی نوکری سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ فروری میں قذافی کے خلاف مسلح جد و جہد میں وہ اس کا حصہ بن گئے تھے۔ مسلح جد و جہد کے دوران وہ بریقہ میں تعینات تھے۔
لیبیا کی صورت حال پر امریکہ کی جانب سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ فریقین کو چاہیے کو وہ اس صورت حال میں مذاکرات اور بات چیت کو اپنا ہتھیار بنا کر امن و سلامتی کے حصول کو ممکن بنائیں۔ امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک کے سفارتکاروں کا بھی خیال ہے کہ اگر عبوری حکومت صورت حال پر جلد از جلد قابو پانے میں ناکام رہی تو عوامی انقلاب کے بعد کی موجودہ صورت حال ایک خونی فساد کا پیش خیمہ بن جائے گی۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: ندیم گِل