1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لینن گراڈ محاصرے کے اختتام کے ستّر برس

ماری ٹوڈیز کینو / امجد علی27 جنوری 2014

ستائیس جنوری اُنیس سو چوالیس کو جرمن فوج کی جانب سے روسی شہر لینن گراڈ کا محاصرہ اپنے اختتام کو پہنچا تھا۔ ٹھیک ستّر برس پہلے کے اس واقعے پر ڈی ڈبلیو نے ممتاز جرمن مؤرخ یورگ گانسن ملر کے ساتھ بات چیت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1AxkN
1942ء کی اس تصویر میں لینن گراڈ کے باسی سخت سردی میں پانی کا انتظام کرتے نظر آ رہے ہیں
1942ء کی اس تصویر میں لینن گراڈ کے باسی سخت سردی میں پانی کا انتظام کرتے نظر آ رہے ہیںتصویر: imago/ITAR-TASS

اُس وقت کا لینن گراڈ آج سینٹ پیٹرز برگ کہلاتا ہے۔ جرمن فوج کی جانب سے اس شہر کا محاصرہ آٹھ ستمبر 1941ء کو شروع ہوا تھا اور تقریباً نو سو روز تک جاری رہا تھا۔ نازی آمر اڈولف ہٹلر سابقہ سوویت یونین کے اس دوسرے بڑے شہر کو فتح کرنے کی بجائے منصوبہ بندی کے ساتھ اس شہر کے باسیوں کو بھوک سے مار دینا چاہتا تھا۔

1941ء کی اس تصویر میں دو جرمن فوجی افسران سوویت فوجوں کے محاذ کا دوربین سے جائزہ لے رہے ہیں
1941ء کی اس تصویر میں دو جرمن فوجی افسران سوویت فوجوں کے محاذ کا دوربین سے جائزہ لے رہے ہیںتصویر: Ullstein

اس محاصرے کے نتیجے میں باہر سے اَشیائے خوراک شہر کے اندر پہنچنا بند ہو گئیں۔ شہر کے اندر موجود اَشیائے خوراک جلد ہی ختم ہو گئیں اور نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ لینن گراڈ کے باسیوں نے چمڑا ابال ابال کر کھایا، وال پیپرز کو چپکانے کے لیے استعمال کیا گیا مادہ کھرچ کھرچ کر کھا گئے، حتیٰ کہ اُنہوں نے شہر میں بلیوں اور چوہوں تک کو نہ چھوڑا۔ آدم خوری کے بھی چند ایک واقعات رونما ہوئے۔ تقریباً ایک ملین انسان بھوک سے یا سردی سے ٹھٹھر ٹھٹھر کر مر گئے۔ کہیں ستائیس جنوری 1944ء کو ریڈ آرمی اس شہر کو آزاد کروانے میں کامیاب ہوئی۔

جرمن مؤرخ یورگ گانسن ملر نے اس محاصرے کی تاریخ پر جامع تحقیق کی ہے۔ گانسن ملر جرمنی کی Jena یونیورسٹی میں مشرقی یورپی تاریخ پڑھاتے ہیں اور لینن گراڈ کے محاصرے پر مختلف مضامین کے ساتھ ساتھ ایک کتاب ’محصور لینن گراڈ، 1941ء تا 1944ء‘ کے بھی مصنف ہیں۔

ڈی ڈبلیو: یہ بتائیے کہ اس محاصرے کے خاتمے پر لینن گراڈ کے باسیوں کا رَد عمل کیا تھا؟

گانسن ملر: یہ محاصرہ دو مراحل میں ختم ہوا تھا۔ 1943ء کے اوائل میں ہی ریڈ آرمی کو محاصرہ توڑ کر شہر کو اَشیائے خوراک کی فراہمی کا ایک کوریڈور بنانے میں کامیابی حاصل ہو گئی تھی۔ جب ستائیس جنوری 1944ء کو درحقیقت یہ محاصرہ ختم ہوا تو اسے توپوں کی سلامی دی گئی۔ شہر بھر میں اطمینان کی فضا تھی، تاہم بھوک نے لوگوں کو اتنا لاغر کر دیا تھا کہ وہ سڑکوں پر نکل کر رقص کرنے یا جشن منانے کی حالت میں نہیں تھے۔ اس دن کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محاصرے کے خاتمے کا دن آج بھی اس شہر کی ثقافتی یادداشت کا حصہ ہے اور اس روز سینٹ پیٹرز برگ میں ایک بڑا جشن منایا جاتا ہے۔

جرمن مؤرخ یورگ گانسن ملر
جرمن مؤرخ یورگ گانسن ملرتصویر: privat

ڈی ڈبلیو: اس کے برعکس جرمنی میں اس محاصرے کو یاد کرنے کا سلسلہ نہ ہونے کے برابر ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟

گانسن ملر: جرمنی میں ایک طویل عرصے تک جرمن سوویت جنگ کے اُن مقامات کو یاد کیا جاتا رہا ہے، جہاں زیادہ تعداد میں جرمن فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی میں سٹالن گراڈ کی اہمیت زیادہ رہی ہے۔ نازی جرمن فوج کے جرائم کو یاد کرنے کا سلسلہ اَسّی کے عشرے کے آغاز کے بعد تک بھی کم ہی نظر آتا ہے۔ لینن گراڈ کے محاصرے کو معمول کا ایک جنگی حربہ گردانا جاتا رہا۔ ایسا سوچتے ہوئے یہ بات نظر انداز کر دی جاتی ہے کہ یہ لوگ شہر کو فتح نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ وہاں کے باسیوں کو بھوک سے مار دینا چاہتے تھے۔

ڈی ڈبلیو: آج کل اس موضوع کو کس حد تک مختلف انداز میں لیا جا رہا ہے؟

تقریباً نو سو روز تک جاری رہنے والے محاصرے کے دوران لینن گراڈ میں تقریباً ایک ملین انسان بھوک اور سردی کے باعث موت کے منہ میں چلے گئے تھے
تقریباً نو سو روز تک جاری رہنے والے محاصرے کے دوران لینن گراڈ میں تقریباً ایک ملین انسان بھوک اور سردی کے باعث موت کے منہ میں چلے گئے تھےتصویر: picture-alliance/dpa

گانسن ملر: ایک تو یہ ہوا ہے کہ مشرقی اور مغربی جرمنی کے پھر سے متحد ہو جانے کے بعد اس محاصرے کے بارے میں دونوں طرف کے جرمن عوام کا نقطہء نظر یکساں نظر آ رہا ہے۔جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک میں یہ موضوع اسکولوں کے نصاب تک میں شامل تھا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ میں بھی اس محاصرے کو زیادہ نمایاں جگہ دی جاتی ہے۔ 2001ء میں اُس وقت کے جرمن چانسلر گیرہارڈ شروئیڈر اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے سینٹ پیٹرز برگ میں محاصرے کی مرکزی یادگار پر پھول چڑھائے تھے۔

ڈی ڈبلیو: آپ نے اپنی کتاب میں اس محاصرے کو جرمنی کی جانب سے تباہ کرنے کی پالیسی کا ایک حصہ قرار دیا ہے۔ اس پالیسی کا مقصد کیا تھا؟

گانسن ملر: روس پر چڑھائی کے دوران سوچا یہ گیا تھا کہ جرمن فوج کے لیے اَشیائے خوراک کی تمام تر فراہمی خود روسی سرزمین سے ہی عمل میں لائی جائے گی۔ پہلے سے حساب لگا لیا گیا تھا کہ ایسا تبھی ممکن ہے، جب مقامی سوویت آبادی بھوکی رہے۔ یہ پہلے سے طے تھا کہ بڑے شہروں کی آبادی کو اَشیائے خوراک فراہم نہیں کی جا سکیں گی۔ جب 1941ء کے موسم گرما میں جرمن فوجیوں کو اَشیائے خوراک کی فراہمی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا، تب کہا گیا کہ اب ساتھ ساتھ تین ملین آبادی والے ایک پورے شہر کو بھی اَشیائے خوراک کی فراہمی ممکن نہیں رہی۔