لیوہسا کتاب کی دنیا پر ڈیجیٹل اثرات سے ناخوش
8 اکتوبر 2010پیرو کے اس ادیب کے بقول یہ امر بھی خوش کن نہیں کہ اليکٹرانک بُکس، يعنی کتابوں کو کسی بھی طرح کے کمپيوٹر پر ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھنے کے رجحان ميں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ادب کے نوبل انعام کا اعزاز پانے والے اس اديب کا کہنا ہے کہ اليکٹرانک بُکس کے آج کے دور ميں ايک بہت قيمتی شے، يعنی کاغذ پر چھپی کتاب کے کھو جانے کا خطرہ ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’مجھے اميد ہے کہ نئی ٹيکنالوجی کے نتيجے ميں کتاب کا مواد اور متن غير اہم نہيں ہو جائے گا۔‘‘
ماريو ورگاس لیوہسا نے اپنی زندگی ميں تخيل اورعظيم عصری سياسی جدوجہد کے امتزاج کا راستہ اپنايا ہے۔ وہ ايک بڑی اور قد آور شخصيت ہيں۔ ادب کے نوبل انعام کا اعلان کرنے والی سويڈش اکيڈمی نے ان کے لئے ’’اخلاقی ضمير‘‘ کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔
74 سالہ لیوہسا نے جمعرات کی شام امریکی شہر نيو يارک ميں ايک پريس کانفرنس ميں کہا کہ اپنے لئے نوبل انعام کا اعلان اُن کے لئے حيرانی کا ایک لمحہ تھا۔ انہوں نے کہا: ’’مجھے اميد ہے کہ ميں اپنی زندگی ميں صرف اس ايک عارضی خلل کے بعد اسے جھيلنے ميں کامياب ہو جاؤں گا۔ ميں اپنی عمر کے آخری دنوں تک لکھتا رہوں گا۔ ميرے خيال ميں نوبل انعام سے ميری تحريروں، ميرے انداز اور موضوعات ميں کوئی تبديلی نہيں آئے گی۔‘‘
اپنے ابتدائی ناول ’’ہيرو کا زمانہ‘‘ سے لے کر حاليہ ناول ’’بکری کی ضيا فت‘‘ تک وہ اپنے آبائی ملک پيرو سے نکل کر ڈومينيکن ريپبلک جیسی دور دراز کی منزلوں کی طرف بڑھے ہيں۔ نوبل کميٹی نے ماریو ورگاس لیوہسا کو گذشتہ کئی برسوں کے دوران تاريخی ناول، جاسوسی ناول، يادداشتيں، ہلکی پھلکی مزاحيہ تحريريں اور علمی مضامين لکھنے پر ادب کا نوبل انعام ديا ہے۔
سويڈش اکيڈمی نے طاقت کے ڈھانچوں، مزاحمت اور بغاوت کرنے اور شکست کھانے والے افراد کی بہت متاثر کن کردار کشی پر لیوہسا اور ان کے طرز تحریر کی خاص طور پر تعريف کی۔
ماریو لیوہسا اپنی زندگی میں سياست ميں بھی بھرپور حصہ لت چکے ہیں۔ انہوں نے پيرو کے صدارتی انتخابات میں حصہ لے کر سربراہ مملکت بننے کی کوشش کی تاہم ان کی یہ کاوش ناکام رہی تھی۔ انہوں نے پہلے کيوبا کے انقلاب کی حمايت تھی لیکن بعد میں اس کے شدید مخالف بن گئے۔
وہ جنگوں اور تنازعات کے بارے ميں ايک صحافی کے طور پر بھی لکھ چکے ہيں۔ تاہم جمعرات کو نیو یارک میں انہوں نے يہ تسليم کيا کہ اطلاعات، ميڈيا اور نشر و اشاعت کی دنيا ميں جو انقلاب آ رہا ہے، اس سے ان کی پسندیدہ ’’الفاظ کی دنیا‘‘ پر شديد اثر پڑ رہا ہے۔
لیوہسا نے کہا کہ تبديلی ناگزير تو ہے ليکن وہ نہیں جانتے کہ آیا وہ اس تبدیلی پر خوش بھی ہيں۔ اس لئے کہ وہ ’’کتاب کو کاغذ پر چھپی کتاب‘‘ ہی سمجھتے ہيں ’’نہ کہ کمپيوٹر پر پڑھی جانے والی اليکٹرانک کتاب۔‘‘
ماریو ورگاس لیوہسا کہتے ہیں کہ انہيں اميد ہے کہ ادب، سماجی اور انسانی نوعيت کے اہم ترين مسائل سے مربوط ہی رہے گا۔ ان کا کہنا ہے: ’’ميرے خيال ميں يہ خطرہ موجود ہے کہ ٹيکنالوجی کتاب کے مواد اور متن کو مفلس اور کمزور کر دے گی۔ ليکن اس کا انحصار خود ہم پر بھی ہے۔ اگر ہم ادب کو اسی طرح قائم رکھنا چاہتے ہيں، جيسا کہ وہ اب تک ہے، تو يہ ہمارے ہی ہاتھ ميں ہے۔ ہم ايسا کر سکتے ہيں۔‘‘
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: مقبول ملک