ماؤ نواز باغیوں کی کارروائیوں میں اضافہ، من موہن سنگھ کا اعتراف
15 ستمبر 2009بھارتی وزیر اعظم کے بقول پاکستان سے عسکریت پسندوں کی دراندازی میں بھی گزشتہ مہینوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ملک بھر سے نئی دہلی میں جمع ہوئے پولیس کے اعلیٰ افسران کے اجلاس سے خطاب میں وزیر اعظم من موہن سنگھ نے کہا کہ ماؤ نواز باغی ملک کی داخلی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ من موہن سنگھ کے مطابق اس مسئلے سےنمٹنے کے لئے ایک نئی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔ وزیر اعظم نے تسلیم کیا: "بھارتی ریاست ماؤ نواز باغیوں کے مسئلے کے حل میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے"۔ انہوں نے ان باغیوں کی آسام اور منی پور میں بڑھتی ہوئی طاقت کے حوالے سے تشویش کا اظہار بھی کیا۔
بھارتی وزیر اعظم نے سلامتی کے موضوع پر ہونے والے اس اجلاس کے شرکاء کو بتایاکہ حکومتی کوششوں کے باوجود ملک میں پرتشدد واقعات میں کمی نہیں ہوئی۔ اسی اجلاس میں گزشتہ روز بھارتی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے بھی ماؤ نواز باغیوں کے ریلوے، بجلی اور ٹیلی مواصلاتی تنصیبات پر بڑھتے ہوئے حملوں پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اس حوالے سے من موہن سنگھ نے کہا: "ملک میں امن قائم رکھنے کے لئے دور جدید کے پولیس افسران کی ضرورت ہے جو نہ صرف جدید ٹیکنالوجی سے واقف ہوں بلکہ ان میں کام کرنے کا بہتر جذبہ بھی پایا جاتا ہو"۔
بھارت میں ماؤ نواز باغیوں کی مسلح جدوجہد کا آغاز 1967 میں ہوا تھا جو اب ملک کی 29 میں سے 20 ریاستوں میں پھیل چکی ہے۔ ان باغیوں کی کارروائیوں میں اب تک قریب 600 افراد مارے جاچکے ہیں۔
اسی اجلاس میں بھارتی وزیر اعظم نے پاکستان پر ایک بار پھر الزام عائد کیا کہ وہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ نئی دہلی کا موقف ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے عسکریت پسندوں کے بھارت میں داخلےکے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ تاہم من موہن سنگھ نے یہ بھی بتایا کہ یہ دراندازی صرف کنٹرول لائن کے پار سے ہی نہیں بلکہ نیپال، بنگلہ دیش اور سمندر کے راستے سے بھی ہو رہی ہے۔
دونوں ہمسایہ ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر اب تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی۔ اس کے علاوہ بھارت کی جانب سے گزشتہ برس کے ممبئی حملوں کے حوالے سے ذمہ داری بھی پاکستان پر عائد کی گئی تھی جس کے بعد سے نئی دہلی اور اسلام آباد کے مابین باقاعدہ امن مذاکرات ابھی تک تعطل کا شکار ہیں۔
رپورٹ: میرا جمال
ادارت: مقبول ملک