ماؤ کی یاد منانا بے ذوقی؟ آسٹریلیا میں کنسرٹ منسوخ
1 ستمبر 2016آسٹریلیا کے سب سے بڑے شہر سڈنی اور دوسرے بڑے شہر ملبورن کی چینی کمیونٹی نے شکایت کی تھی کہ ستمبر کے مہینے میں ’گلوری اینڈ ڈریم‘ کے عنوان سے ان دونوں شہروں کے ٹاؤن ہالز میں مجوزہ کنسرٹس کے ذریعے ایک ایسے رہنما کو خراج عقیدت پیش کیا جا ر ہا ہے، جو کروڑوں انسانوں کی ہلاکت کا باعث بنا تھا۔
یکم ستمبر کو سڈنی کی سٹی کونسل کی طرف سے ایک ای میل میں کہا گیا کہ پولیس کے ساتھ صلاح و مشورے کے بعد کونسل نے ان کنسرٹس کو امن عامہ میں خلل کے خدشات اور دیگر وجوہات کے پیشِ نظر منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس ای میل کے مطابق کنسرٹس کے منتظمین اب خود بھی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ موسیقی کے ان پروگراموں کے دوران خلل اور نقصِ امن کے خدشات کے ساتھ ساتھ لوگوں کی سلامتی کا خطرہ بھی موجود ہے۔
ان کنسٹرس کا اہتمام سڈنی کے ایک پراپرٹی ڈیویلپر پیٹر ژُو کے ساتھ ساتھ ’انٹرنیشنل کلچرل ایکسچینج ایسوسی ایشن‘ نامی ایک تنظیم کی طرف سے کیا جا رہا تھا۔ نیوز ایجنسی روئٹرز نے کنسرٹس کی منسوخی کے حوالے سے ان دونوں منتظمین کے ساتھ رابطے کی کوشش کی لیکن وہ کسی تبصرے کے لیے دستیاب نہیں تھے۔
آسٹریلیا میں چینی نژاد شہریوں کی ایک بڑی کمیونٹی آباد ہے، جو عوامی جمہوریہٴ چین سے باہر بسنے والے چینیوں کی بڑی کمیونٹیز میں سے ایک ہے۔ آسٹریلیا کی چوبیس ملین کی آبادی میں سے ایک ملین سے زائد شہری خود کو چینی نژاد قرار دیتے ہیں۔
ماؤ زے تُنگ کا انتقال 1976ء میں ہوا تھا۔ وہ اپنے انتقال کے عشروں بعد بھی ایک متنازعہ شخصیت ہیں۔
چین کے کرنسی نوٹوں پر ماؤ کی تصویر ہوتی ہے۔ اُن کی حنوط شُدہ لاش آج بھی بیجنگ میں محفوظ ہے، جسے ہزاروں افراد دیکھنے کے لیے جاتے ہیں۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی اس امر کا اعتراف کر چکی ہے کہ ماؤ سے غلطیاں سر زد ہوئی تھیں لیکن سرکاری سطح پر ابھی تک چین کے ثقافتی انقلاب یا 1958ء سے لے کر 1961ء تک جاری رہنے والے لانگ مارچ کے دوران بھوک سے مرنے والے کئی ملین انسانوں کے حوالے سے کوئی احتساب نہیں ہوا ہے۔
دوسری طرف ماؤ کو کمیونسٹ پارٹی کے اندر موجود بائیں بازو کے اُس دھڑے کے ہاں ایک رہنما علامت کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے، جو یہ سمجھتا ہے کہ تین عشروں سے جاری آزاد معاشی اصلاحات کے نتیجے میں معاشرے میں عدم مساوات کو فروغ ملا ہے اور امیر اور غریب کے درمیان خلیج وسیع تر ہو گئی ہے۔