مائیکرو چِپس والی شہد کی مکھیاں
آسٹریلوی ماہرین نے 10 ہزار شہد کی مکھیوں پر مائیکرو چِپس لگائی ہیں۔ اس کا مقصد دنیا بھر میں شہد کی مکھیوں کی تیزی سے کم ہوتی آبادی کی وجہ جاننا ہے۔
بھاری بھرکم چپ؟
اس کی شہد کی مکھی کی پشت پر موجود اس چپ کا سائز 2.5 ملی میٹر ہے تاہم اس کا وزن محض 5.4 ملی گرام ہے۔ بظاہر یہ چپ بہت بڑی نظر آتی ہے تاہم آسٹریلوی تحقیقی ادارے CSIRO کے ماہر گیری فِٹ کے مطابق اس چپ کا وزن قریب اس ایک پولن کے ہی قریب ہے جو یہ مکھیاں جمع کرتی ہیں۔
ننھی مکھی کی کمر پر سامان
آسٹریلوی ریاست تسمانیہ میں قریب 10 ہزار یورپی شہد کی مکھیوں میں یہ RFID سینسر چپس لگائی گئی ہیں۔ ان چپس کو باندھنے کے لیے ماہرین کو ان مکھیوں کو تھوڑی دیر کے لیے بے ہوش کرنا پڑا۔ برازیل میں بھی ایسا ہی ایک تجربہ چل رہا ہے۔
مقصد شہد کی مکھیوں کا معمول جاننا
مکھیوں پر لگی چپس کے علاوہ ان کے چھتوں میں بھی ریسیورز لگائے گئے ہیں۔ اس کا مقصد ان مکھیوں کے ماحول میں پرواز کے دوران اور چھتے میں گزارے جانے والے وقت کے دوران ان کے معمولات جاننا ہے کہ وہ کچھ کھا رہی ہیں، پولن جمع کر رہی ہیں یا کچھ اور۔
بنیادی مسئلہ
اس تحقیق اور دنیا بھر میں اس طرح کی دیگر تحقیق کی بدولت سائنسدان یہ جان سکیں گے کہ شہد کی مکھیوں کی بڑی تعداد میں ہلاکت کی وجوہات کیا ہیں تاکہ ان کا خاتمہ کیا جا سکے۔ گیری فِٹ کے مطابق ان کے طریقہ کار سے یہ فوری طور پر جانا جا سکتا ہے کہ مکھیاں مختلف چیزوں پر کیسا ردعمل دکھاتی ہیں۔
زندگی کو لاحق خطرات
حالیہ برسوں کے دوران دنیا بھر میں شہد کی مکھیوں کی کالونیاں بہت تیزی سے ختم ہوئی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس کی ایک وجہ ’واروا مائٹس‘ نامی ننھی جوؤں کےعلاوہ فصلوں پر چھڑکی جانے والی کیمیائی ادویات بھی ہیں۔ خیال رہے کہ شہد کی مکھیاں پھولوں کے 70 فیصد پودوں کی پولینیشن کرتی ہیں۔ مکھیوں کے خاتمے سے خوراک کا بحران بھی پیدا ہو سکتا ہے۔