ماحولیات: دنیا کے کمزور ترین ملکوں کی طاقت
3 مئی 2018اقوام متحدہ کے دفتر ماحولیات کی میزبانی میں شروع ہونے والی مذاکراتی کانفرنس میں ماحولیاتی صورت حال پر فوری طور پر توجہ مرکوز کرنے کو اہم قرار دیا گیا ہے۔ جرمن شہر بون میں ماحولیات کانفرنس کے شرکاء رواں اور اگلے ہفتے کے دوران سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور ماحولیاتی امور پر پیچیدہ معاملات کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جنوبی ایشیا، افریقہ، پیسیفِک اور کریبیین ممالک نے زمین کے درجہٴ حرارت کر بڑھانے میں نہ ہونے کے برابر حصہ ادا کیا ہے لیکن وہ اس کے باوجود بھاری قیمت چکانے سے گزر رہے ہیں۔
دنیا کی ایک بڑی کورل ریف دریافت
بھارت 2030 ء تک تمام گاڑیوں کو الیکٹرک کارز بنانے کا خواہش مند
باغات کا شہر: ماحولیاتی آلودگی کی لپیٹ میں
صرف پیرس معاہدہ ہی کافی نہیں، میرکل
کانفرنس میں انتہائی کم ترقی یافتہ ممالک کے گروپ کے سربراہ گیبرُو جیمبر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اب انتہائی کم ترقی یافتہ ممالک ’متاثرین‘ کے بیانیے سے آگے نکل گئے ہیں اور وہ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ پر زور مذاکرات میں شریک ہیں۔ جیمبر کے مطابق اب یہ گروپ صرف خاموشی سے ماحولیاتی کانفرنسوں کی تقاریر نہیں سن رہے بلکہ انہوں نے ایسے مذاکرات میں لیڈرشپ کا کردار سنبھال لیا ہے۔
دنیا کے سینتالیس انتہائی کم ترقی یافتہ ممالک عالمی سالانہ شرح پیداوار میں محض دو فیصد کے شریک ہیں۔ ان میں سے اکثریت یعنی تینتیس کا تعلق براعظم افریقہ سے ہے۔ بقیہ انتہائی کم ترین ترقی یافتہ ممالک کا تعلق جنوبی ایشیا، پیسیفِک اور لاطینی امریکا سے ہے۔ یہ ممالک دنیا کی کل آبادی کا بارہ فیصد ہیں اور عالمی تجارت میں ان کا حصہ صرف ایک فیصد ہے۔
یورپی یونین کا موقف ہے کہ ان متاثرہ ملکوں کو سب سے زیادہ امداد فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب نگرانی کرنے والے گروپوں کا کہنا ہے کہ ماحولیات کے تناظر میں دی جانے والی یورپی یونین کی امداد کا صرف انیس فیصد حصہ ان سینتالیس انتہائی کم ترقی یافتہ ملکوں کو ملا ہے جب کہ درمیانے درجے کے ترقی یافتہ ممالک یہ امداد حاصل کرنے میں زیادہ کامیاب رہے ہیں۔
نگرانی کے گروپوں کے مطابق ماحول دوست ٹیکنالوجی کے لیے ترکی اور یوکرائن جیسے ممالک زیادہ فائدے میں رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے دفتر ماحولیات نے واضح موقف دیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی صنعتی ترقی فوسل فیول کے بے پناہ استعمال کے مرہونِ منت ہے، اس لیے یہ ممالک انتہائی کم ترقی یافتہ ممالک کے معاونت و مدد میں شریک ہوں۔
دوسری جانب بین الاقوامی غیرسرکاری تنظیم آکسفیم کا کہنا ہے کہ امیر ممالک کے وعدے توقع سے کم رہے ہیں اور سن 2016 میں امداد کا ہدف نصف سے بھی کم رہا تھا سن 2010 میں ایک سو بلین کا فنڈ تجویز کیا گیا تھا اور ابھی تک یہ ہدف بھی بعید از قیاس ہے۔
ایرین بانوس رُوئس (عابد حسین)