ماحولیاتی تبدیلیاں، پاکستان میں حیاتیاتی تنوع کو خطرہ
3 جون 2010پاکستان میں جہاں معاشرتی تبدیلیاں بڑی تعداد میں انسانوں کی نقل مکانی اور مہاجرت کا سبب بن رہی ہیں، وہیں قدرتی ماحول میں تغیر اور قدرتی ماحولیاتی نظام کی تباہی دور دراز کے علاقوں سے نقل مکانی کر کے آنے والے مختلف نسلوں کے پرندوں کی آمد میں کمی کا باعث بھی بن رہی ہیں ۔
اس کا ایک ثبوت یہ کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران پاکستان میں فطری طور پر مختلف موسموں میں مہاجرت کر کے وہاں محدود مدت کے لئے قیام کرنے والے ایسے پرندوں کی آمد میں واضح کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے نواح میں مری کی پہاڑیوں سے لے کر راول جھیل تک کا علاقہ ہمیشہ ہی سے ہزاروں میل دور سے نقل مکانی کر کے آنے والے مختلف رنگوں اور قسموں کے پرندوں کی محدود عرصے کے لئے پسندیدہ قیام گاہ رہا ہے۔ لیکن اب اس علاقے کی یہ حیثیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔
اس کا سبب خاص طور پر مری کے پہاڑی علاقوں کی تیز رفتار کمرشلائزیشن بھی ہے اور راول جھیل اور اس کے ارد گرد کے علاقے میں ناپید ہوتے جا رہے قدرتی ماحولیاتی نظام بھی۔ ماضی میں راول جھیل اور اس کا نواحی علاقہ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ایسے پرندوں کاعارضی مسکن ہوا کرتا تھا، جو سردیوں کے علاوہ گرمیوں کے موسم میں بھی اس خطے کا رخ کرتے تھے۔
اس عمل میں ان پرندوں کی اپنے ماحول کے حوالے سے عمومی طور پر بہت حساس فطرت بھی اہم کردار کرتی تھی اور پاکستان، بالخصوص اسلام آباد اور راول جھیل کے علاقے میں پائے جانے والے وہ قدرتی حیاتیاتی نظام یا بائیو سسٹمز بھی جو اب یا تو ناپید ہوتے جا رہے ہیں یا اپنی پہلے جیسی اصلی حالت میں نہیں ہیں۔
اسلام آباد کی رہائشی ایک خاتون نوال نے راول جھیل کے علاقے میں پرندوں کی کمی کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے ڈ وئچے ویلے کو بتایا : ’’ یہ بہت افسوسناک بات ہے کہ اب راول جھیل کے پانیوں پر اور اس کے ارد گرد کے ماحول میں زیادہ پرندے نظر نہیں آتے۔‘‘
نوال کہتی ہیں کہ وہ ماضی میں اپنے اہل خانہ اور دوستوں کے ہمراہ اکثر راول جھیل پر جایا کرتی تھیں کہ وہاں اس جھیل کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ جو بات سب سے زیادہ متاثرکن ہوتی تھی، وہ وہاں موجود مختلف اقسام کے پرندے ہوتے تھے وہ کہتی ہیں: ’’اب یہ پرندے بہت تھوڑی تعداد میں ہوتے ہیں اور بالعموم کسی اور جگہ دیکھنے میں نہیں آتے۔ اس لئے حکومت کو ان پرندوں کے تحفظ کے لئے فوری اقدامات کرنا چاہیئں۔‘‘
تحفظ فطرت کے عالمی ادارے IUCN کی پاکستانی شاخ کے سربراہ شاہ مراد نے اس بارے میں ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ حالیہ برسوں میں پرندوں کی نقل مکانی میں بہت کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ان کے تحفظ کے لئے مختلف منصوبوں پر کام بھی جاری ہے اورمختلف ادارے بھی کافی فعال ہیں، تاہم نتائج ابھی بھی حوصلہ افزا نہیں ہیں۔
شاہ مراد نے اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اول تو ان پرندوں نے نا موافق ماحول کے باعث نقل مکانی ترک کردی ہے اور جو پاکستان کے مختلف علاقوں کا رخ کرتے بھی ہیں، وہ شکاریوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ پاکستان میں IUCN کے سربراہ کے مطابق قدرتی ماحولیاتی نظام یا ایکو سسٹم کے تحفظ کے لئے PWD کا محکمہ ایک باقاعدہ منصوبے پر کام بھی کر رہا ہے۔
پاکستان میں تحفظ ماحول کے ملکی ادارے EPA کے ڈائریکٹر جنرل آصف شجاع خان نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ خصوصی گفتگو میں کہا کہ نقل مکانی کرنے والے پرندے اب اگر زیادہ تر راول جھیل کے ’ایکوسسٹم‘ کا رخ نہیں کرتے تو اس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان میں پانی کی شدید ہوتی ہوئی کمی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پانی کی اس کمی کو پورا کرنا اور ماحول کو نقل مکانی کرنے والے ان پرندوں کے لئے سازگار بنانا تحفظ ماحول کے لئے سرگرم اداروں اور تنظیموں کو درپیش دو بہت بڑے چیلنج ہیں۔
آصف شجاع کا کہنا تھا کہ پاکستانی وزارت ماحولیات کی جانب سے مہاجرت کرنے والے پرندوں کے تحفظ کے لئے کوئی باقاعدہ فنڈز تو مختص نہیں کئے گئے، تاہم اس سلسلے میں متعدد پروجیکٹس پر کام جاری ہے۔
معروف ماہر ماحولیات طاہر قریشی نے نقل مکانی کرنے والے پرندوں کی پاکستان آمد میں کمی کو قابل تشویش قرار دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستانی حکومت کی طرف سے وائلڈ لائف یعنی جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے فوری اور مؤثر اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔
کئی ماہرین حیاتیات کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں عام شہریوں کے لئے داخلی سلامتی کو یقینی بنانا اورغربت، مہنگائی، بے روزگاری اور مختلف بیماریوں پر قابو پا سکنا حکومت کے لئے بڑے مسائل ثابت ہو رہے ہیں۔ ایسے میں قدرتی ’اِیکو سسٹمز‘ کا تحفظ اور پاکستان کو نقل مکانی کرنے والے پرندوں کے لئے مسلسل پر کشش بنائے رکھنے کی کوششیں سیاسی اور معاشرتی ترجیحات میں کہیں نظر نہیں آتیں۔
مستقبل میں کسی بھی معاشرے میں دیرپا ترقی کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ وہاں تحفظ ماحولیات کس حد تک کیا جاتا ہے، اور کوئی بھی معاشرہ اپنے ہاں حیاتیاتی تنوع کو درپیش خطرات کا مقابلہ کتنی سنجیدگی سے کر رہا ہے۔ اس حقیقت کا اطلاق ظاہر ہے کہ پاکستان پر بھی ہوتا ہے، جہاں ابھی تک اس بارے میں اجتماعی شعور کی کمی ہے۔
رپورٹ: عصمت جبیں، اسلام آباد
ادارت: عاطف بلوچ