ماسکو میٹرو کی انوکھی دنیا
حال ہی میں ماسکو میٹرو کے دو سو ویں اسٹیشن کا افتتاح عمل میں آیا ہے۔ یہ ایک الگ ہی سلطنت ہے۔ ہر اسٹیشن نہ صرف منفرد، خوبصورت اور جدید طرزِ تعمیر کا حامل ہے بلکہ روسی تاریخ کے کسی نہ کسی الگ دور کی بھی نمائندگی کرتا ہے۔
مضافات میں نیو پلاسٹسزم
رومیانسیوو: یہ زیر زمین میٹرو اسٹیشن ماسکو میں نئے تعمیر ہونے والے اسٹیشنز میں سے ایک ہے، اس کا ڈیزائن ولندیزی مصور پیٹ مونڈریاں کے فن سے ماخوذ ہے، جسے نیو پلاسٹسزم کا خالق کہا جاتا ہے۔ اس ڈیزائن میں مونڈریاں کے افقی اور عمودی خطوط کو چمکتے ہوئے فولاد اور پالش کیے گئے پتھروں سے ہم آہنگ کیا گیا ہے۔ یہ اسٹیشن ماسکو کے مرکز سے کچھ دور مضافاتی علاقے میں واقع ہے۔
کرومیم کا جنگل
2014ء میں بننے والے اس اسٹیشن کا نام ہے، ٹروپارئیووو، جس کا جدید ترین ڈیزائن آنکھوں کو خیرہ کر دیتا ہے۔ کسی درخت سے مشابہ قدر آور انسٹالیشنز کرومیم چڑھی دھات سے بنائی گئی ہیں اور فوٹوگرافر شوق سے یہاں تصویریں بنانے کے لیے آتے ہیں۔
ستّر کے عشرے کی جھلک
جس وقت سوویت یونین ٹوٹ رہا تھا اور سیاسی منظر نامہ ابتری کا شکار تھا، اُس دور میں بھی نئے اسٹیشنز کی تعمیر کا کام جاری رہا۔ یہ اور بات ہے کہ اِس دور میں خوبصورتی اور آرائش سے زیادہ مقصدیت کو پیشِ نظر رکھا گیا۔ ستّر کے عشرے میں سادہ فن تعمیر کو جدید خیال کیا جاتا تھا۔ یہ تصویر کزنیٹسکی موست نامی اسٹیشن کی ہے، جس کا افتتاح 1975ء میں ہوا تھا۔
آرٹ اور سوشلزم
ماسکو میٹرو کے شاندار اسٹیشن سٹالن کے دور میں تعمیر ہوئے۔ تب ڈیزائن میں آرائش و زیبائش اور مصورانہ شاہکاروں کو بنیادی اہمیت دی گئی۔ ایسے موضوعات نمایاں ہیں، جن میں سوشلزم کے نظریے کی وضاحت کی گئی ہے۔ تصاویر میں زیادہ تر فوجی، مزدور اور کسان نظر آتے ہیں۔ یہ تصویر کییف سکایا اسٹیشن کی ہے، جس میں یوکرائن کے دیہات کے روزمرہ معموملات دکھائے گئے ہیں۔
ایک اسٹیشن فراموش کردہ دوستی کے لیے
کییف سکایا اسٹیشن کے ایک اور حصے کو روس اور یوکرائن کی دوستی کے نام کیا گیا ہے۔ بڑے بڑے آرائشی فریمز کے اندر ایسے مناظر اور ایسی شخصیات کی تصاویر ہیں، جو دونوں ملکوں کی دوستی میں مرکزی اہمیت رکھتی ہیں۔ اس اسٹیشن کا افتتاح 1950ء کے عشرے کے اوائل میں ہوا تھا۔ تب کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کبھی یہی بردار قومیں ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار بھی اٹھا لیں گی۔
سوویت طرزِ تعمیر میں کلیسائی کھڑکیاں
نووسلوبوڈسکایا ماسکو کے بہت سے شہریوں کا پسندیدہ ترین اسٹیشن ہے۔ اس کا ڈیزائن دوسرے اسٹیشنوں کی طرح بہت شاہانہ بھی نہیں ہے اور یہ اُن سے چھوٹا بھی ہے لیکن اس کی خاص بات اس کی رنگا رنگ شیشوں سے مزین وہ روشن کھڑکیاں ہیں، جو کسی گرجا گھر کی یاد دلاتی ہیں۔ اس اسٹیشن میں روشنی اور رنگ دیکھ کر ایسے لگتا ہے، جیسے اوپر نیچے ہر طرف پانی ہی پانی ہو۔
سطحِ زمین پر بنے اسٹیشن بھی جاذب نظر
ماسکو میٹرو کے سارے ہی اسٹیشن زیر زمین نہیں ہیں۔ زمین کی سطح پر بنے کئی اسٹیشن بھی بہت خوبصورت ہیں، جیسے کہ 1950ء سے چلا آ رہا ’پارک کلٹوری‘ اسٹیشن۔ اس طرح کے گنبدوں والے اسٹیشن زیادہ تر ماسکو کے مرکزی حصے میں ہیں۔ اس اسٹیشن پر عموماً بہت رَش ہوتا ہے اور یہاں سے لوگ دوسری سمتوں کو جانے کے لیے اپنی ٹرینیں بدلتے ہیں۔
کسی دور کا تہ خانہ، آج ملاقات کا مقام
ماسکو کی میٹرو لوگوں کو جلد از جلد ایک سے دوسرے مقام تک ہی نہیں پہنچاتی بلکہ یہاں لوگوں کو ایک دوسرے سے میل ملاقات کے مواقع بھی میسر آتے ہیں۔ اکثر یہاں جوڑے، پرانے دوست یا کاروباری پارٹنر اردگرد سے بے نیاز اپنی گفتگو میں گم نظر آتے ہیں۔ 1938ء میں تعمیر ہونے والے مایا کووسکایا نامی اس قدیم اسٹیشن کو عالمی جنگ کے دوران فضائی حملوں سے بچاؤ کے لیے تہ خانے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔
خوش قسمتی لانے والے جانور
پلوش چاڈ ریوولیوسٹسی: یہ اسٹیشن بھی 1938ء میں تعمیر ہوا تھا۔ یہاں کانسی کے بڑے بڑے مجسمے ہیں، جن میں سوشلسٹ ہیرو بھی ہیں لیکن اُن کے ساتھ ساتھ کسی مرغ یا کتے کے بھی مجسمے ہیں۔ پاس سے گزرنے والے مرغی کی کلغی کو یا پھر کتے کے منہ کو ہاتھوں سے چھُو لیتے ہیں۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ ایسا کرنا خوش قسمتی کا باعث بنتا ہے۔
روزانہ آٹھ ملین انسانوں کے لیے 200 اسٹیشن
سرخ رنگ میں چمکنے والا ایم کا یہ نشان ماسکو کی میٹرو کا علامتی نشان ہے اور لوگ اسے شوق سے دیکھتے ہیں۔ ماسکو میں زیر زمین میٹرو کے یہ اسٹیشن کبھی کبھی ایک دوسرے سے کئی کئی کلومیٹر کے فاصلے پر ہوتے ہیں۔ ماسکو کی میٹرو کو ہر روز آٹھ ملین انسان استعمال کرتے ہیں۔ یہ تعداد جرمن شہروں برلن، میونخ، ہیمبرگ اور کولون کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ بنتی ہے۔