مالدیپ کے سابق صدر نشید صدارتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں کامیاب
8 ستمبر 2013جنوبی ایشیا کی ریاست مالدیپ میں ہفتے کے روز صدارتی الیکشن کا انعقاد ہوا۔ ملکی الیکشن کمیشن نے ووٹوں کی گنتی کے بعد اتوار کی صبح یہ اعلان کیا کہ سابق صدر محمد نشید صدارتی انتخابات ضرور جیت گئے ہیں لیکن وہ مطلوبہ50 فیصد ووٹ حاصل نہیں کر پائے۔ یہ اعلان مالیپ کے قومی الیکشن کمیشن کے سربراہ فواد توفیق نے پریس کانفرنس میں کیا۔ فواد توفیق کے مطابق اس طرح اب سابق صدر کو صدارتی الیکشن کے دوسرے مرحلے کا سامنا ہے۔ ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب 83 فیصد تھا۔ مالدیپ میں صدر کے الیکشن کے لیے دوسرے مرحلے کی ووٹنگ رواں مہینے کی28 تاریخ کو ہوگی۔ اگر ہفتے کے روز نشید 50 فیصد ووٹ حاصل کر لیتے تو انہیں دوسرے مرحلے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
ہفتے کے روز ہونے والے صدارتی الیکشن میں معزول صدر محمد نشید کو 45 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ ان کو اپنے بقیہ حریفوں پر بڑی سبقت ضرور حاصل رہی لیکن وہ کامیابی کے نشان کو چھونے سے ناکام رہے۔ محمد نشید کو گزشتہ برس منصب صدارت سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔ ان کے مطابق انہیں منصب سے زبردستی ہٹایا گیا تھا۔ قائم ہونے والی عبوری حکومت کو فوج کی حمایت بھی حاصل تھی۔ دوسرے مرحلے کے لیے ووٹنگ تقریباً تین ہفتوں کے بعد اٹھائیس ستمبر کو ہو گی اور سابق صدر کو مالدیپ کے سابق آمر مامون عبدالقیوم کے سوتیلےبھائی عبداللہ یامین عبدالقیوم کا سامنا ہو گا۔ یامین ہفتے کے روز صرف 26 فیصد ووٹ حاصل کر سکے تھے۔
ہفتے کے روز ہونے والے پرامن انتخابات میں نشید کو جو 45 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں ان کے حوالے سے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ممتار مقامی اخبار حویرُو کے ایڈیٹر مُوسیٰ لطیف کا کہنا ہے کہ 50 فیصد ووٹ نہ ملنے پر یقینی طور پر نشید کو مایوسی کا سامنا ہے اور اب اگلے مرحلے میں ان کی کامیابی مشکل بھی ہو سکتی ہے کیونکہ تمام امیدوار متحد ہو کر ان کے حریف کی حمایت کر سکتے ہیں۔ نشید کے مخالف امیدواروں میں عبداللہ یامین اور قاسم ابراہیم خیال کیے جاتے تھے لیکن معمولی سبقت سے عبداللہ یامین عبدالقیوم دوسری پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ نشید کے نائب صدر اور موجودہ صدر محمد وحید کو خاصی بڑی شکست کا سامنا ہوا ہے۔
مالدیپ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کثیر الجماعتی انتخابات سن 2008 میں کروائے گئے تھے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں 30 برسوں سے قائم آمرانہ حکومت کا خاتمہ ہوا تھا۔ گزشتہ برس عوامی مظاہروں کے نتیجے میں مستعفی ہونے کے بعد محمد نشید کا کہنا تھا کہ ان سے استعفیٰ زبردستی لیا گیا تھا۔ وہ گزشتہ سال فروری کے مہینے میں منصب صدارت سے علیحدہ ہوئے تھے اور اسے نشید نے فوجی بغاوت بھی کہا تھا۔