1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مالی بدعنوانیاں، کانگریس کا مستقبل خطرے میں

بینش جاوید7 اکتوبر 2013

ایک بھارتی عدالت نے ملکی سیاست کی ایک اہم شخصیت لالو پرساد یادو کو مالی بدعنوانیوں کے جرم میں پانچ سال قید کی سزا سنائی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کے عوام میں بدعنوان سیاستدانوں کے لیے برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/19v7D
بھارت کے سابق وفاقی وزیر ریلوے لالو پرساد یادو کو مالی بدعنوانی کے جرم میں پانج برس کی سزائے قید سنائی گئی ہے
بھارت کے سابق وفاقی وزیر ریلوے لالو پرساد یادو کو مالی بدعنوانی کے جرم میں پانج برس کی سزائے قید سنائی گئی ہےتصویر: picture alliance/AP Photo

گزشتہ ہفتے سنائی جانے والی یہ سزا بھارتی سیاسی منظر نامے پر ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اپنے دو دہائیوں پر پھیلے ہوئے سیاسی کیریئر میں وہ نہ صرف ایک سو ملین کی آبادی کے صوبے بہار کے سربراہ رہے ہیں بلکہ انہوں نے بھارت کی ریلوے جیسی بڑی وزارت بھی سنبھالے رکھی ہے۔ لالو پرساد یادو اپنے اوپر مالی بدعنوانیوں کے الزامات کے باوجود سیاست میں اپنے قدم جمائے رہے تاہم عدالتی فیصلے کے بعد اب وہ جیل میں ہیں۔

ایک حالیہ سروے کے مطابق اگلے برس ہونے والے انتخابات میں بھارت کی حکمران جماعت کانگریس پارٹی 543 رکنی پارلیمنٹ میں صرف 125 نشستوں پر کامیابی حاصل کر پائے گی۔ انتخابات میں پہلے سےکم نشستیں حاصل کرنے کی ایک بڑی وجہ کانگریس کے دور میں ملکی تاریخ میں سب سے بڑے پیمانے پر ہونے والی مالی بدعنوانیاں ہیں۔ اس وقت پارلیمنٹ میں کانگریس کی 206 نشستیں ہیں اور وہ اتحادی جماعتوں کی مدد سے حکومت کر رہی ہے۔

کانگریس پارٹی کے لیے امید کی نئی کرن راہول گاندھی
کانگریس پارٹی کے لیے امید کی نئی کرن راہول گاندھیتصویر: Reuters

گزشتہ چند برسوں میں بھارت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ کی حکومت کو ٹو جی موبائل کی خرید، 2010ء میں کرائی جانے والی کامن ویلتھ گیمز اور کوئلے کی تقسیم کار کے معاملات میں مالی بدعنوانیوں کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان الزامات نے ملک میں مالی بدعنوانیوں کے خلاف انا ہزارے کی تحریک کو جنم دیا۔ اُن کی سربراہی میں 2011ء میں کرپشن کے خلاف ملک گیر مظاہرے ہوئے۔ لوئی انسٹیٹیوٹ کے ایک سروے کے مطابق ملک کے 92 فیصد آبادی یہ سمجھتی ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں ملک میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔

بھارت میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے 30 فیصد قانون سازوں کو ریپ، قتل اور اغوا جیسے سنگین الزامات کا سامنا ہے۔ بھارتی عوام میں سیاستدانوں کی جانب سے کی جانے والی بدعنوانیوں کے خلاف غم و غصے کے باعث بہت سی نئی سیاسی جماعتیں میدان میں اتری ہیں، جو ملکی سیاسی جماعتوں اور جرائم پیشہ عناصر کے درمیان قائم تعلق کو توڑنے کے لیے پر عزم ہیں۔ بھارتی سیاستدانوں اور جرائم پیشہ عناصر کے درمیان دیرینہ تعلقات ہیں، جس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سیاستدانوں کی انتخابی مہم کے لیے رقم طاقت ورجرائم پیشہ افراد کی جانب سے آتی ہے۔ بھارت میں قائم ایک ادارے، ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز کے مطابق بھارت کی دو بڑی سیاسی جماعتوں، بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس کو 90 فیصد پیسہ نامعلوم ذرائع سے آتا ہے۔

نئی قائم ہونے والی سیاسی جماعتوں میں ایک جماعت، عام آدمی جماعت ہے۔ اس جماعت کا انتخابی نشان جھاڑو ہے، جس سے یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ ملک کی سیاست سے غلاظت کو صاف کرنے کے لیے استعمال ہو گا ۔ سمجھا جا رہا ہے کہ یہ جماعت نئی دلی میں ایک تیسری سیاسی قوت کے طور پر ابھرے گی۔ اس جماعت کے علاوہ نو بھارت ڈیموکریٹک پارٹی بھی کرپشن کے خاتمے کے ارادے سے میدان میں اتری ہے۔ اس جماعت کے سربراہ، راجیندرا مشرا کے مطابق ان کی جماعت کو اندازہ ہے کہ انہیں مالی بدعنوانیوں کو ختم کرنے کے خلاف کتنے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو کچھ ہم کرنا چاہتے ہیں، وہ ایک خواب لگتا ہے لیکن اگر ہم خواب نہیں دیکھیں گے تو کچھ بھی ممکن نہیں ہے۔

بزرگ رہنما انا ہزارے ملک میں بڑے پیمانے پر پائی جانے والی بدعنوانی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے تھے
بزرگ رہنما انا ہزارے ملک میں بڑے پیمانے پر پائی جانے والی بدعنوانی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے تھےتصویر: Reuters

بھارت کی عدلیہ بھی سیاست سے کرپشن کے خاتمے کے لیے سرگرم نظر آتی ہے۔ جولائی میں سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا تھا کہ وہ قانون ساز جن پر سنگین جرائم کرنے کے الزامات ہیں، انہیں فوراً اپنی نشستیں چھوڑنا ہں گی۔ تاہم چند روز قبل وزیراعظم من موہن سنگھ کی کابینہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ایک حکم جاری کر دیا تھا، جس کے تحت سزا یافتہ سیاستدان نہ صرف اپنے موجودہ عہدے پر برقراررہ سکتے ہیں بلکہ انتخابات میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔

ناقدین کی رائے میں کابینہ نے یہ حکم لالو پرساد یادو جیسے اتحادیوں کو بچانے کے لیے جاری کیا تھا جو کانگریس کو انتخابات کے بعد حکومت چلانے میں مدد دے سکتے ہیں۔ تاہم راہول گاندھی، جو گاندھی خاندان کے چشم و چراغ ہیں اور جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کانگریس جماعت کی جانب سے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیے جائیں گے، انہوں نے کابینہ کے اس حکم کے خلاف بھر پور تنقید کی۔ راہول گاندھی کی جانب سے کہا گیا کہ اس حکم نامے کو پھاڑ کے پھینک دینا چاہیے۔

کابینہ کی جانب سے اس فیصلے پر شرمندہ حکومت نے چند دن بعد ہی یہ حکم نامہ واپس لے لیا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے میں راہول گاندھی نے اس فیصلے کے خلاف آواز اس لیے اٹھائی کیونکہ انہیں یقین تھا کہ اس فیصلے کے بعد کانگریس کی پہلے سے خراب ساکھ مکمل طور پر تباہ ہو جائے گی۔