مالی مدد کا مقصد افغان تعمیر نو کی تیز رفتاری، ایران
26 اکتوبر 2010قبل ازیں افغان صدر حامد کرزئی نے پیر کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہر سال تہران حکومت کی طرف سے کابل میں صدارتی محل کے اخراجات پورے کرنے کے لئے سات لاکھ سے لے کر ایک ملین امریکی ڈالر تک مہیا کئے جاتے ہیں۔
افغان صدرکا یہ بیان امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز میں ویک اینڈ پر شائع ہونے والی اس رپورٹ کے بعد سامنے آیا، جس میں حامد کرزئی کے چیف آف اسٹاف عمر داؤد زئی کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ ایران سے نقد رقوم وصول کرتے رہے ہیں۔
نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ عمر داؤد زئی، جو ماضی میں ایران میں افغانستان کے سفیر بھی رہ چکے ہیں، مغرب کے خلاف نظریات رکھتے ہیں۔ ایران غالباً انہیں پیسے دے کر کابل کے حکومتی اہلکاروں میں مغرب مخالف جذبات بھڑکانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ داؤد زئی روزانہ صدر کرزئی سے ملاقات میں انہیں تازہ ترین صورتحال کے بارے میں بریفنگ بھی دیتے ہیں۔
نیو یارک ٹائمز کی اس رپورٹ پر صدر کرزئی نے ایران کی طرف سے کسی قسم کی خفیہ مالی امداد کی فراہمی کی خبر کو سختی سے رد کرتے ہوئے اس پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔ صدر کرزئی نے کہا تھا: ’’ہم ایرانی عوام کے شکر گزار ہیں۔ امریکہ بھی اسی طرح ہمارے چند اہلکاروں کو نقد رقوم دیتا ہے۔ اس میں کوئی ایسی بات نہیں جسے غیر ضروری اشتعال انگیزی کے لئے استعمال کیا جائے۔‘‘
حامد کرزئی کے بقول دوست ریاستوں کی طرف سے افغانستان کو رقوم کی ادائیگی کا معاملہ کیمپ ڈیوڈ میں سابق امریکی صدر جاج ڈبلیو بش کے ساتھ بھی زیر بحث آیا تھا۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ آیا انہوں نے خاص طور سے ایران کا بھی نام لیا تھا یا نہیں۔
ادھر تہران میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان رامین مہمان پرست سے جب افغان صدر کے گزشتہ روز دئے گئے بیانات پر ایرانی موقف کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا: ’’اسلامی جمہوریہء ایران پڑوسی ملک کی حیثیت سے افغانستان کی سلامتی اور استحکام کوغیر معمولی اہمیت کا حامل سمجھتا ہے۔ ہماری حکومت نے افغانستان کی تعمیر نو کے لئے بہت معاونت کی ہے۔‘‘ تاہم مہمان پرست نے اس تعاون کی نوعیت کی کوئی وضاحت نہیں کی۔ انہوں نے مزید کہا: ’’ایران افغانستان کی اقتصادی ترقی اور تعمیر نو کے لئے اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔‘‘
ایران کے افغانستان کے ساتھ اقتصادی اور دیگر شعبوں میں تعاون کے بارے میں امریکہ میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ واشنگٹن سالوں سے جاری افغانستان جنگ کے خاتمے کے عمل کو تیز تر کرنا چاہتا ہے۔ ایسے وقت میں افغانستان میں بڑھتی ہوئی امریکہ اور مغرب کے حوالے سے مخالفت امریکی حکام کے لئے ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔ امریکہ کو یہ خطرات بھی لاحق ہیں کہ کہیں ایران افغانستان میں باغیوں کو فنڈز دے کر وہاں پائی جانے والی مغرب دشمنی کی آگ کو ہوا دینے کی کوشش نہ کرے، خاص طور سے کابل میں حکومتی اہلکاروں کو کہیں ایران اپنی طرف نہ کر لے۔
دریں اثناء وائٹ ہاؤس کے نائب ترجمان بل برٹن نے کہا ہے کہ امریکی عوام اور عالمی برادری کے پاس یہ سمجھنے کے تمام تر جواز موجود ہیں کہ ایران افغانستان پر منفی طریقے سے اثر انداز ہو رہا ہے۔ بل برٹن کے مطابق ایران پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائے کہ افغانستان میں دہشت گرد اپنے محفوظ ٹھکانے نہ بنا پائیں اور وہاں کی سرزمین حملوں کی منصوبہ بندی کے لئے استعمال نہ کی جائے۔
ایران اور امریکہ کے مابین گزشتہ تین دہائیوں سے کوئی سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ نائن الیون کے بعد سے ایران اپنی مشرقی سرحدوں پر، یعنی افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں کی موجودگی، اور دوسری جانب مغرب میں، عراق میں امریکہ کی فوجی موجودگی کی باعث، اپنے لئے کافی خطرات محسوس کرتا ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک