مالی میں فوجی بغاوت: صدرمستعفی، پارلیمان تحلیل
19 اگست 2020مالی کے باغی فوجیوں نے صدر ابراہیم موسی اور ان کے حکومتی رفقا میں سے بعض اعلی حکام کو اپنی حراست میں لے لیا تھا جس کے بعد صدر نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے اور پارلیمان کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے سرکاری ٹی وی چینل پر اس کا اعلان کرتے ہوئے اپنے مختصر سے بیان میں کہا، ''میں نہیں چاہتا کہ میرے اقتدار میں بنے رہنے کے لیے خون خرابہ ہو۔''
حکومت کے مستعفی ہونے سے قبل باغی فوجیوں نے وزیراعظم بوبو سیسے اور حکومت کے دیگر اعلی حکام کو اپنی حراست میں لے لیا تھا۔ مالی کو جہادی قسم کی باغیانہ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر حکومت مخالف مظاہروں کی وجہ سے پہلے ہی سے عدم استحکام کا سامنا رہا ہے اور تازہ واقعات سے ملک کو شدید قسم کے سیاسی انتشار کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس بغاوت کے پیچھے کس گروپ یا رہنما کا ہاتھ ہے اور آخر باغیوں کی جانب سے حکومت کا تختہ پلٹنے کا اہم مقصد کیا ہے۔
یہ سب کیسے ہوا؟
منگل کے روز دارالحکومت بماکو سے تقریبا ً15 کلو میٹر کے فاصلے پر کاٹی شہر میں فوجی ہتھیاروں کے ساتھ جمع ہوئے اور سویلین و فوجی اعلی افسران کو ایک ایک کرکے گرفتار کرنا شروع کر دیا۔ بماکو میں ڈی ڈبلیو کے نامہ نگار محمودو کانے کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ہی بڑی تعداد میں مظاہرین جمع ہونے شروع ہوگئے جو موجودہ حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ کانے کے مطابق، ''ایسا لگتا ہے کہ وہ فوج کی حمایت کر رہے ہیں تاہم یہ واضح نہیں کہ آخر فوج کا مطالبہ کیا ہے۔''
اطلاعات کے مطابق فوجیوں نے اعلی حکومتی حکام کی گرفتاری سے قبل ہوا میں فائرنگ کی۔ مالی کے وزیراعظم نے فوجیوں سے ہتھیار ڈالنے کو بھی کہا تاہم ان کے ساتھ بھی ہاتھا پائی ہوئی اور انہیں حراست میں لے لیا گیا۔ اعلی حکام کی گرفتاریوں کے بعد دارالحکومت بماکو میں فوجیوں کو آزادانہ طور پر گشت کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ ڈی ڈبلیو کے مطابق وزیر خزانہ عبداللہ دافع اور نیشنل گارڈز کے سربراہ اور وزیر اطلاعات و نشریات سمیت کئی وزراء کو حراست میں لیا گیا ہے۔
عالمی رد عمل
مالی میں اس فوجی بغاوت کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی ہے۔ افریقن یونین کمیشن کے سربراہ موسی فاقی محمد نے نے اپنی ایک ٹویٹ میں اس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے تمام رہنماؤں کو رہا کرنے کی اپیل کی ہے۔
یوروپی یونین نے بھی اس کی مذمت کی ہے۔ یونین کے نائب صدر جوسیپ بوریل نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ''مالی میں اس وقت بغاوت کی جو کوششیں ہورہی ہیں، یورپی یونین اس کی مذمت کرتی ہے اور تمام غیر آئینی تبدیلیوں کو مسترد کرتی ہے۔ مالی کو گزشتہ کئی ماہ سے جس شدید سماجی و سیاسی بحران کا سامنا رہا ہے اس کایہ حل تو ہرگز نہیں ہو سکتا۔''
فرانس کی وزارت خارجہ نے بھی اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ دی اکانومک کمیونٹی آف ویسٹ افریقن اسٹیٹ نے بھی اس کی مذمت کی ہے اور ردعمل کے طور پر مالی کی رکنیت ختم کر دی ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ جو افراد بھی باغیانہ سرگرمیوں کے پیچھے ہوں ان پر فوراً پابندی لگانے کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس نے فوجی بغاوت کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مالی کے صدر کوفوری طور پر بلا شرط رہا کرنے کی اپیل کی ہے۔ ان کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ ''مالی میں فوری طور پر آئین کی بحالی اور قانون کی حکمرانی کو نافذ کیا جائے۔'' غالب امکان اس بات کا ہے کہ بدھ 19 اگست کو مالی کی تازہ صورت حال پر سکیورٹی کاؤنسل کا اجلاس طلب کیا جائیگا۔
صورت حال کیسے خراب ہوتی گئی؟
مالی میں سیاسی صورت حال اس برس کے اوائل اس وقت خراب ہونی شروع ہوئی جب مارچ میں پارلیمانی انتخابات کے پہلے مرحلے سے تین روز قبل ہی حزب اختلاف کے رہنما سومائیلا سیسے کو اغوا کر لیا گیا۔ ووٹنگ کے دوران بھی انتخابی حکام کو اغوا کرنے اور بیلٹ بکسوں کو چرانے اوربیلٹ پیپر پھاڑنے جیسے بہت سے واقعات کے ساتھ ہی ایک زبردست دھماکہ ہوا تھا۔ انتخابی عمل میں خرد برد اور تشدد کے بعد عدالت نے بعض سیٹوں پر انتخابات کو بدعنوانی کی وجہ سے کالعدم قرار دیا تھا۔
حکومت نے انتخابی عمل کو اچھی طریقے سے انجام نہیں دیا جس کی وجہ سے لوگوں میں غصہ تھا اور جون آتے آتے یہ غصہ سڑکوں پھوٹ پڑا جب بڑے پیمانے پر حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوگئے۔ اس مناسبت سے جون5 کے نام سے ایک تحریک شروع ہوگئی جس کا مطالبہ تھا کہ حکومت استعفی دے۔ جولائی میں احتجاجی مظاہروں کے دوران تشدد میں تقریبا ً14 افراد ہلاک بھی ہوئے۔
اس سے قبل مالی میں 2012 میں بھی بغاوت ہوئی تھی اور صدر امادو طومانی طورے کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔ اس کے نتیجے میں شمالی مالی کاعلاقہ جہادی ملیشیا کے ہاتھ میں چلا گیا تھا۔
ص ز/ ج ا (ایجنسیاں)