مانوس جزیرے پر مہاجرین کا حراستی مرکز بند کرنے پر اتفاق
17 اگست 2016آسٹریلوی قوانین کے تحت سمندری راستے سے آسٹریلیا پہنچنے کی کوشش کرنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کو اگر پکڑ لیا جائے، تو انہیں ناؤرُو کے جزیرے یا پاپوا نیو گنی کے چھوٹے سے مانوس نامی جزیرے پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ایسے مہاجرین کبھی بھی آسٹریلیا میں پناہ کے اہل قرار نہیں دیے جاتے۔
مہاجرین کے ایسے حراستی مراکز میں بہت سے تارکین وطن تو کئی برسوں سے مقید ہیں۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنان ان حراستی مراکز کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان کیمپوں میں مہاجرین اور ان کے بچوں کے استحصال کی رپورٹوں بھی موصول ہوتی رہتی ہیں۔
پاپوا نیو گنی کے عوام کا ایک حلقہ مہاجرین کو اپنے ملک میں بسانے کے خلاف ہے۔ بحرالکاہل کے اس چھوٹے سے جزیرے پر مقامی باشندوں کی طرف سے پناہ کے متلاشی اور آسٹریلیا جانے کے خواہش مند غیر ملکیوں پر کئی حملے بھی کیے جا چکے ہیں۔
پاپوا نیو گنی کے وزیر اعظم پیٹر اونِیل کی طرف سے بدھ کے دن جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ’’پاپوا نیو گنی اور آسٹریلیا کے مابین اتفاق ہو گیا ہے کہ مانوس کے جزیرے پر قائم مہاجرین کے حراستی مرکز کو بند کر دیا جائے گا۔‘‘ تاہم اس مرکز کی بندش کے حوالے سے کسی نظام الاوقات کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
پیٹر اونِیل کے مطابق اس مرکز کو بند کرنے میں کوئی جلد بازی نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایک منظم طریقے سے مرحلہ وار حکمت عملی کے تحت اسے بند کیا جائے گا اور تمام امور کے بارے میں احتیاط برتی جائے گی۔
دوسری طرف آسٹریلیا نے واضح کیا ہے کہ پاپوا نیو گنی میں موجود کسی مہاجر یا تارک وطن کو آسٹریلیا میں پناہ نہیں دی جائے گی۔ آسٹریلیا کے امیگریشن وزیر پیٹر ڈوٹن کے بقول کینبرا حکومت پاپوا نیو گنی کو ہر ممکن مدد فراہم کرے گی تاکہ مانوس میں قائم اس مرکز کو بند کر دیا جائے لیکن مانوس میں موجود کسی بھی مہاجر کو آسٹریلیا میں آباد نہیں کیا جائے گا۔
دوسری طرف بدھ ہی کے دن پیٹر ڈوٹن نے بتایا کہ چھ سری لنکن مہاجرین کو واپس ان کے وطن روانہ کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ افراد سمندری راستے سے آسٹریلیا پہنچنے کی کوشش میں تھے لیکن انہیں آسٹریلوی سمندری حدود میں داخل ہونے سے قبل ہی پکڑ لیا گیا تھا۔ انہوں نے اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا کہ سری لنکا کے ان باشندوں کی کشتی سمندر میں کہاں سے پکڑی گئی تھی۔