متحارب فلسطینی تنظیموں فتح اور حماس میں مفاہمت
28 اپریل 2011ان دونوں فلسطینی تنظیموں کا منصوبہ یہ ہے کہ اُن کی نو تشکیل شُدہ عبوری حکومت نہ صرف فتح کے زیر نگرانی مغربی اُردن کے علاقے کو بلکہ غزہ پٹی کو بھی کنٹرول کرے گی، جو آج کل حماس کے زیرِ انتظام ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس حکومت کے قیام کا اعلان آئندہ چند روز میں کر دیا جائے گا۔ بعد ازاں ایک سال کے اندر اندر اِن خود مختار فلسطینی علاقوں میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات منعقد کروائے جائیں گے۔
دونوں گروپوں کے نمائندوں نے بتایا ہے کہ یہ اتفاقِ رائے مصر کی ثالثی میں عمل میں آیا ہے۔ ابھی یہ بات واضح نہیں ہے کہ اِس مجوزہ سمجھوتے پر دستخط کب ہوں گے۔
فتح کے مذاکراتی وفد کے سربراہ عظام الاحمد نے کہا: ’’ہمارے درمیان تمام معاملات پر اتفاقِ رائے ہو گیا ہے۔‘‘ تاہم ایک بات بدستور غیر واضح ہے کہ آئندہ فتح اور حماس کی متحارب سکیورٹی فورسز کو کون کنٹرول کرے گا۔ الاحمد کے مطابق ’عرب نگرانی‘ میں ان سکیورٹی فورسز کی نئے سرے سے تشکیل ہو گی جبکہ غزہ پٹی میں حماس کے ایک نمائندے کا کہنا تھا کہ حماس سرِ دست اپنے علاقے کو خود ہی کنٹرول کرے گی۔ واضح رہے کہ سکیورٹی فورسز کے کنٹرول کے سوال پر عدم اتفاق ہی کے باعث 2007ء میں خود مختار فلسطینی علاقوں میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی، جو غزہ پٹی پر حماس کے مکمل کنٹرول کے ساتھ اختتام کو پہنچی تھی۔
آج کل مغربی اُردن میں سلام فیاض وزیر اعظم ہیں جبکہ غزہ پٹی میں یہی عہدہ اسماعیل حانیہ کے پاس ہے۔ ابھی یہ معاملہ بھی طے نہیں کیا گیا کہ ان دونوں کا جانشین کون بنے گا۔ الاحمد نے کہا کہ اِس سلسلے میں دونوں ہی تنظیمیں اگلے چند روز کے اندر اندر کسی حل پر متفق ہو جائیں گی۔ فلسطینی صدر محمود عباس بدستور اپنے عہدے پر کام کرتے رہیں گے، اُنہوں نے فتح اور حماس کے درمیان مفاہمتی مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے دو ہفتے قبل پیشکش کی تھی کہ وہ آئندہ اس عہدے کے لیے امیدوار نہیں ہوں گے۔
اُدھر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اپنے ابتدائی رد عمل میں حماس کے ساتھ، جو مشرقِ وُسطیٰ میں کسی یہودی ریاست کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، کسی بھی طرح کے اشتراکِ عمل کو رد کر دیا ہے۔ پریس کے لیے اپنے ایک بیان میں نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ’خود مختار فلسطینی انتظامیہ کو اسرائیل کے ساتھ امن اور حماس کے ساتھ امن میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا‘۔
امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان ٹومی ویٹر نے فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت کی وکالت کی تاہم ساتھ ہی خبردار بھی کیا کہ حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے، جو شہری آبادی کو حملوں کا نشانہ بناتی ہے۔ ویٹر نے کہا کہ کسی بھی فلسطینی حکومت کو اسرائیل کو تسلیم کرنا اور تشدد کا راستہ ترک کرنا ہو گا۔
فلسطینی اِس سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سامنے اپنی ایک الگ ریاست کے تسلیم کیے جانے کا سوال پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک مشترکہ حکومت اُن کی اِن کوششوں کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: ندیم گِل