امارات نے امریکا سے ہتھیار معاہدہ مذاکرات معطل کر دیے
15 دسمبر 2021خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس (اے پی) کے مطابق واشنگٹن میں اماراتی سفارت خانے نے ایک بیان میں کہا کہ وہ امریکا کے ساتھ 'بات چیت معطل' کردے گا، البتہ اس ہفتے پینٹاگون میں دونوں فریقوں کے درمیان دیگر معاملات پر ملاقاتیں شیڈول کے مطابق آگے بڑھیں گی۔
سفارت خانے نے بیان میں مزید کہا، ''امریکا جدید دفاعی ضرورتوں کے لیے متحدہ عرب امارات کا ترجیحی فراہم کنندہ ہے اور مستقبل میں ایف35 طیاروں کے لیے بات چیت دوبارہ ہو سکتی ہے۔"
خلیج فارس میں امریکا کے اہم اتحادی متحدہ عرب امارات اور واشنگٹن کے درمیان یہ تنازع اپنی نوعیت کے لحاظ سے غیر معمولی ہے۔
خیال رہے کہ متحدہ عرب امارات کو 50 ایف 35 طیاروں کی مجوزہ فروخت کا معاملہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے آخری سال میں سامنے آیا تھا۔ 23 ارب ڈالر کے اس دفاعی معاہدے میں 18 جدید ڈرون سسٹم اور فضا سے فضا اور فضا سے زمین تک مار کرنے والے اسلحوں کی فروخت بھی شامل ہے۔
معاہدے کو معطل کرنے کی وجہ
اس مجوزہ معاہدے کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان "معاہدہ ابراہیمی"سے بھی مربوط کیا گیا تھا۔ ٹرمپ کی ثالثی میں یو اے ای کے علاوہ بحرین، مراقش اور سوڈان نے بھی اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے کے لیے معاہدے کیے تھے۔
متحدہ عرب امارات کے ایک عہدیدار نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "تکنیکی ضروریات، آپریشنل پابندیوں اور لاگت اور فائدے وغیرہ پر غور کرنے کے بعد مجوزہ معاہدے کا ازسرنو جائزہ لیا گیا۔"
اس 23.37 ارب ڈالر کے دفاعی پیکج کے تحت جنرل اٹامکس، لاک ہیڈ مارٹن اور ریتھیون ٹیکنالوجیز سے ہتھیاروں کی خریداری کی بات ہوئی تھی۔ ان میں 50 ایف 35 جدید ترین جنگی طیارے، 18ایم کیو۔9 بی خود کار دفاعی نظام اور فضا سے فضا اور فضا سے زمین تک مار کرنے والے اسلحو ں کی فروخت شامل تھی۔
متحدہ عرب امارات کے حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکا کی جانب سے یہ جاننے کا اصرار کہ ایف 35 طیاروں کو کس طرح اور کہاں استعمال کیا جاسکتا ہے، ملک کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہے۔
امریکا کا ردعمل
امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں کہا، "انتظامیہ مجوزہ فروخت پر کاربند ہے۔ یہاں تک کہ ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مشاورت جاری رکھیں گے کہ طیاروں کی حوالگی سے پہلے، دوران اور بعد میں یو اے ای کی ذمہ داریوں کے متعلق باہمی افہام و تفہیم ہو۔"
پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے منگل کے روز صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ امریکی ساختہ فوجی سازوسامان کے استعمال کے بارے میں امریکی تقاضے "پوری دنیا کے لیے ہیں، ان پر بات نہیں ہو سکتی اور یہ صرف متحدہ عرب امارات کے لیے مخصوص نہیں ہیں۔"
جان کربی نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ امریکی شراکت داری کسی ایک ہتھیار کی فروخت سے زیادہ اسٹریٹیجک اور پیچیدہ ہے۔
امریکا کے ساتھ ہتھیاروں کے معاہدے پر بات چیت معطل کرنے کے حوالے سے متحدہ عرب امارات کے سفارت خانے کا بیان ایسے وقت آیا ہے جب امارات نے فرانسیسی صدر ایمانویل میکروں کے دورہ کے دوران فرانس کے ساتھ 15.8ارب ڈالر کی مالیت کے 80 رفائل جنگی جہازوں کی خریداری کا معاہدہ کیا تھا، جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔
واشنگٹن اب بھی پرامید
امریکی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ بائیڈن انتظامیہ "اب بھی پرامید ہے کہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ بات چیت کے ذریعہ مسائل کا حل تلاش کرلیا جائے گا۔"
دونوں ملکوں کے مابین ہتھیاروں کے سودے میں تعطل کی خبر پہلی مرتبہ دینے والے امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے منگل کے روز کہا تھا کہ امریکا ایسی شرائط پر اصرار کررہا ہے جس سے اس امر کو یقینی بنایا جاسکے کہ ایف 35 جنگی طیارے چینی جاسوسی کا شکار نہ بن سکیں۔
متحدہ عرب امارات خلیج فارس میں امریکا کا اہم ترین اتحادی ہے۔ وہ طویل عرصے سے انسداد دہشت گردی کے حوالے سے امریکا کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے اور رواں سال افراتفری میں ہوئے امریکی انخلا کے دوران افغانستان سے فرار ہونے والے افراد کے داخلے کی اجازت دے چکا ہے۔
ج ا/ص ز (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)