1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

متنازعہ برڈ فلو وائرس، تحقیق کے بعض حصے شائع نہیں ہوں گے

22 دسمبر 2011

اعلیٰ امریکی سائنسدانوں نے بدھ کے روز ایک سائنسی جریدے میں برڈ فلو وائرس کے مصنوعی تبدیلیوں سے گزارے گئے وائرس کے بارے میں جدید تحقیق کے بعض حصوں کو سائنسی جریدے میں شائع نہ کرنے کے حکومتی فیصلے کا دفاع کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/13XjL
تصویر: AP

ان سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مصنوعی تبدیلوں کا حامل یہ وائرس انتہائی خطرناک ہے اور اس تحقیق کے بعض حصوں کو سائنسی جرنل میں شائع نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ کہیں دہشت گرد یا انتہا پسند ان تکنیکس سے واقف نہ ہو جائیں۔ سائسندانوں کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں اس وائرس کو حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

دریں اثناء اس تحقیق میں شامل سائنسدانوں نے بھی حکومت اور اس سائنسی جریدے کے مدیران سے مکمل تعاون کا عندیہ دیا ہے۔ یہ سائنسی تحقیق سائنس اور نیچر نامی جرائد میں چند ہفتے بعد شائع ہونا تھی، مگر اب اس کے بعض حصے حذف کر دیے جائیں گے۔

BdT Vogelgrippe Impfung in Vogelpark
اس وائرس پر تحقیق برسوں سے جاری ہےتصویر: AP

یہ متنازعہ تحقیق سائنسدانوں کی دو ٹیموں کی جانب سے کی گئی ہے۔ ان میں سے ایک ٹیم کا تعلق ہالینڈ سے جبکہ دوسری کا امریکہ سے تھا۔ دونوں ٹیموں نے دو مختلف طریقوں سے برڈ فلو کا باعث بننے والے وائرس H5N1 آویَن انفلوینزا میں ایسی تبدیلیاں کیں کہ یہ خطرناک حد تک ممالیہ جانوروں میں منتقل ہو سکتا ہے اور پھیلتا چلا جاتا ہے۔

اب تک برڈ فلو وائرس انسانوں کو کم ہی متاثر کرتے دیکھا گیا ہے تاہم جب یہ کسی انسان کو متاثر کرتا ہے، تو جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ H5N1 نے سب سے پہلے 1997ء میں انسانوں کو متاثر کیا تھا۔ اس وائرس سے متاثر ہونے والے ہر دو میں سے ایک شخص کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے تھے اور مجموعی طور پر ان ہلاکتوں کی تعداد 350 ریکارڈ کی گئی تھی۔

اس وائرس کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ ترقی اور نمو پا کر انسانوں میں ایک وبا کا باعث بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ وائرس بالکل ویسے ہی خوفناک حد تک انسانی جانوں کے زیاں کا باعث بن سکتا ہے، جیسے سن 1918 کا ’اسپینش فلو‘، جو 50 ملین انسانوں کی ہلاکت کا باعث بنا تھا۔ اسی طرح 1957 اور 1968ء میں پھیلنے والے ایسے ہی ایک وائرس نے تین ملین انسانوں کو ہلاک کر دیا تھا۔

اس وائرس میں تبدیلوں کو غیر سرکاری تنظیوں کے ایک مشاورتی پینل نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے، تاہم سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس تبدیلی کا مقصد اس وائرس کے حوالے سے تفصیلی معلومات جمع کرنا ہے، تاکہ اس سے بچاؤ کے لیے ویکسین کی تیاری میں مدد مل سکے جبکہ ابتدا میں ایسے ڈیٹا کے چند حصوں کو حذف کرنے کو ان سائسندانوں نے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ’معلومات پر سینسر شپ‘ کا نام دیا تھا۔

Vogelgrippe auf dem Balkan
اس وائرس کا اصل شکار پرندے ہوتے رہے ہیںتصویر: AP

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تحقیق میں یہ ظاہر نہیں ہے کہ مصنوعی طور پر تیار کردہ یہ وائرس کس طرح انسانوں کو متاثر کر سکتا ہے بلکہ یہ بتایا گیا ہے کہ یہ وائرس کس طرح قدرتی طور پر خود میں تبدیلیاں کر کے انسانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت حاصل کر سکتا ہے۔

تاہم نیشنل سائنس ایڈوائزری بورڈ برائے بائیو سکیورٹی کے سربراہ پاؤل کیم نے خبر رساں ادارے AFP سے بات چیت میں کہا کہ انہوں نے اس حوالے سے ڈچ سائنسدانوں سے بھی رابطہ کیا ہے، جبکہ بورڈ کے تمام 23 اراکین نے متفقہ طور پر تحقیقی رپورٹوں کے کچھ حصوں کو شائع نہ کرنے کے حق میں ووٹ دیا ہے تاکہ اس تکنیک کو غلط ہاتھوں میں جانے سے روکا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک انتہائی تباہ کن حیاتیاتی ہتھیار ہو سکتا ہے، کیونکہ جو بھی اسے استعمال کرے گا، وہ پھر اپنے لوگوں کو بھی اس سے بچانے میں ناکام ہو جائے گا۔

’’یہ بات بھی یاد رکھنا ہو گی کہ اگر یہ تکنیک اور وائرس انتہا پسند قوتوں کے ہاتھ لگ گیا، تو وہ اسے پوری دنیا میں خودکش حملوں میں استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ ایک مکمل تباہی ہو گی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ایسے ہتھیار ہرگز تیار نہ کیے جائیں، جن کا تدارک ہی ناممکن ہو اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی انہیں قابو میں لانے میں ناکام ہو جائیں۔

تاہم انہوں نے کہا کہ اس وائرس کے حوالے سے تفصیلات ایسے سائسندانوں کو فراہم کی جائیں گی، جنہیں ان معلومات کی ضرورت ہو گی تا کہ وہ اس کے نتائج کو اپنی تحقیق میں استعمال کر سکیں۔‘‘

رپورٹ: عاطف توقیر

ادارت: امجد علی