متنازعہ جزائر پر امریکی بمبار طیاروں کی پرواز
27 نومبر 2013امریکی B-52 ملٹری طیاروں کی یہ پروازیں چین کے نئے ایئر ڈیفنس ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔ امریکا کا کہنا ہے کہ یہ ایک تربیتی مشن تھا اور یہ چین کی نئی عسکری حکمتِ عملی کا ردِعمل نہیں تھا۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اس کے باوجود امریکا نے یہ واضح کر دیا ہے کہ بیجنگ حکومت کی جانب سے ویک اینڈ پر مشرقی بحیرہ چین کے جزائر کی ملکیت کے حوالے سے وضع کیے گئے نئے دعووں کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
امریکی حکام کے مطابق دو غیر مسلح بمبار طیارے گوام بیس سے اُڑے اور چین کی جانب سے وضع کیے گئے نئے ایئر ڈیفنس زون سے ہوتے ہوئے لوٹ گئے۔ انہوں نے بتایا کہ بیس پر ان کی واپسی ایک گھنٹے سے پہلے ہو گئی تھی اور ان پروازوں کے دوران ان طیاروں کو کسی مسئلے کا سامنا نہیں ہوا۔ امریکا کا کہنا ہے کہ اس نے یہ تربیتی مشن کافی عرصہ پہلے ترتیب دیا تھا۔
مشرقی بحیرہ چین کے ان جزائر کا انتظام جاپان کے پاس ہے تاہم چین بھی ان پر ملکیت کا دعوے دار ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے چین کی جانب سے ملکیت کے نئے دعووں کے ردِ عمل میں کہا ہے کہ بیجنگ حکومت مشرقی بحیرہ چین کی صورتِ حال کو تبدیل کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے منگل کو واشنگٹن میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا: ’’اس سے خطے میں کشیدگی پیدا ہو گی اور بھول چُوک، حادثوں اور محاذ آرائی کا خطرہ رہے گا۔‘‘
چین نے ہفتے کو اعلان کیا تھا کہ نئے ایئر ڈیفنس زون میں داخل ہونے والے تمام طیاروں کو چینی حکام کو مطلع کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ چین کے احکامات نہ ماننے یا اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے والے طیاروں کو ہنگامی عسکری کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ اس خطے میں امریکا کے سینکڑوں عسکری طیارے موجود ہیں اور اس نے کہا ہے کہ وہ چین کے ان احکامات پر عمل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے کہا ہے: ’’ہم بدستور یہ سمجھتے ہیں کہ ویک اینڈ پر سامنے آنے والی چینی پالیسی غیرضروری طور پر اشتعال انگیز ہے اور خطے کو غیر مستحکم بنانے کی وجہ بن سکتی ہے۔‘‘
اسی طرح جاپان نے بھی اس زون کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ تائیوان اور جنوبی کوریا نے بھی چین کے اعلان کو مسترد کر دیا ہے۔