متنازعہ جوہری پروگرام ، ایران کے مؤقف میں لچک
9 مئی 2010تہران میں دفتر خارجہ کے ترجمان رامین مہمان پرست نے صحافیوں کو بتایا کہ جوہری ایندھن کے تبادلے سے متعلق ایرانی حکومت ترکی اور برازیل کے ساتھ نئے فارمولے پر بحث میں مصروف ہے۔ مہمان پرست نے اس مبینہ فارمولے کی جزئیات واضح نہیں کیں البتہ اتنا ضرور کہا کہ معاملات مثبت سمت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
برازیل کے صدر لوئیز اناسیو لولا ڈی سلوا اگلے ہفتے کے اواخر میں تہران کا دورہ کریں گے۔ نیم سرکاری ایرانی خبر رساں ادارے کے مطابق ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوان بھی اسی دورانئے میں ایران کا دورہ کریں گے۔
ترکی اور برازیل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل ارکان ہیں جو مغربی ممالک اور ایران کے بیچ تنازعہ آرائی کی فضا کو سفارت کاری سے حل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان امریکہ، برطانیہ اور فرانس سلامتی کونسل کے ذریعے نئی ایران مخالف اقتصادی پابندیوں کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں جس کے ذریعے ایران کے بینکوں، توانائی اور جہاز رانی سے وابستہ شعبوں کو نشانہ بنایا جاسکے۔
سلامتی کونسل کے دیگر دو مستقل ارکان یعنی چین اور روس کا مؤقف قدرے مختلف ہے جس میں روس دونوں فریقین سے لچک کا مطالبہ کرتے ہوئے، تہران مخالف پابندیوں کی حمایت کا عندیہ دے چکا ہے۔ چین البتہ معاملے کی سفارتی حل پر زیادہ زور دے رہا ہے۔ یاد رہے کہ روس اور چین سے ایران کے اقتصادی تعلقات دیگر تین ممالک کے مقابلے میں زیادہ گہرے ہیں۔ ماسکو اور بیجنگ نے ایران کے جوہری تنازعے کے حل کے لئے ترکی اور برازیل کی کوششوں کو سراہتے ہوئے انہیں مزید وقت دینے کی حمایت کی ہے۔
ادھر واشنگٹن میں اوباما انتظامیہ تہران حکومت کی جانب سے جاری کئے گئے حالیہ بیان سے قبل الزام عائد کرچکی ہے کہ ایران اس قسم کے بیانات جاری کرکے وقت ضائع کررہا ہے اور نئی پابندیوں سے بچنا چاہتا ہے۔
سیاسی اور دفاعی امور کے بعض ماہرین کے بقول تہران حکومت سلامتی کونسل کے رکن ممالک کو تقسیم کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ روسی نائب وزیر خارجہ سیرگئی ریابکوف کے بقول ابھی بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ تنازعے کے دونوں فریق )مغربی ممالک اور ایران( لچک کا مظاہرہ کریں اور ایسا حل ڈھونڈیں جو دونوں جانب کو منظور ہو۔
گزشتہ سال اقوام متحدہ کے تحت ایران کو کم افزودہ یورینیم بیرون ملک بھیجنے کی ایک تجویز پیش کی گئی تاہم معاملات حتمی شکل اختیار نہ کرسکے۔ اقوام متحدہ کی تجویز کے برعکس تہران کی خواہش تھی کہ وہ جوہری ایندھن کے بدلے کم افزودہ یورینیم کے اپنے تمام ذخائر یک دم بیرون ملک منتقل نہیں کرے گا اور ایندھن کا یہ تبادلہ بھی ایرانی سرزمین پر ہی ہونا چاہیئے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عاطف بلوچ