متنازعہ جوہری پروگرام: غیر ملکی سفارتکار ایران میں
16 جنوری 2011ایرانی حکومت کے مطابق غیرملکی سفارتکاروں کے وفد کو حساس مقامات کا دورہ کروانے کا مقصد یہ ہے کہ عالمی طاقتیں جان سکیں کہ ایرانی جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے نہ کہ ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کے لیے۔
اس وفد میں کیوبا، شام، وینزویلا، مصر اور شام کے علاوہ عرب لیگ کے نمائندے بھی شامل ہیں۔ ایرانی حکام نے اس میں شامل ہونے کے لیے امریکہ کو دعوت نہیں دی جبکہ چین، روس اور یورپی یونین نے اس وفد میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔
غیر ملکی سفارتکاروں کا یہ وفد ایرانی جوہری تنصیبات کا دورہ ایک ایسے وقت پر کر رہا ہے، جب ایران آئندہ ہفتے استنبول میں چھ اہم عالمی طاقتوں سے مذاکرات بھی کرنے والا ہے۔ ماہرین کے مطابق ایران نے یہ قدم اس لیے اٹھایا ہے کہ وہ اپنے متنازعہ جوہری پروگرام کے حوالے سے بین الاقوامی حمایت حاصل کر سکے۔
جوہری توانائی کے ایرانی ادارے کے سربراہ اور قائم مقام وزیرخارجہ علی اکبر صالحی نے کہا ہے کہ کوئی بھی ملک اپنی ایٹمی تنصیبات اس طرح لوگوں کے سامنے نہیں رکھتا لیکن تہران حکومت نے یہ قدم اس لیے اٹھایا ہے کہ دنیا دیکھ سکے کہ ایرانی ایٹمی پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
اس موقع پر صالحی نے امریکی دعووں کو مسترد کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ پابندیوں کے نئے دور کے باوجود ان کے ملک کے جوہری پروگرام پر کوئی فرق نہیں پڑا اور وہ ویسے ہی کام کر رہا ہے، جیسے پہلے کر رہا تھا۔ حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا تھا کہ ایران پر پابندیوں کے نئے دور کے بعد سے اس کا جوہری پروگرام بری طرح متاثر ہوا ہے۔
اتوار کے دن علی اکبر صالحی نے کہا کہ تہران حکومت مستقبل میں بھی غیر ملکی سفارتکاروں کو دعوت دیتی رہی گی کہ وہ آئیں اور ایران کی ایٹمی تنصیبات کو دیکھیں۔
دوسری طرف یورپی یونین نے کہہ رکھا ہے کہ غیر ملکی سفارت کاروں کو کوئی بھی ایسا دورہ جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے IAEA کے معائنہ کاروں کے دورے کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ امریکی حکومت نے ایران کے اس عمل کو ایک ڈھونگ قرار دیا ہے۔
مغربی طاقتوں کو یہ خدشات لاحق ہیں کہ ایرانی حکومت اپنے جوہری پروگرام کے ذریعے ایٹمی ہتھیار تیار کرنا چاہتی ہے جبکہ تہران حکومت ایسے تمام الزامات کو رد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ وہ صرف پر امن مقاصد کے لیے ہی اپنا جوہری پروگرام جاری رکھے ہوئے ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: مقبول ملک