مجھے قتل کر دو، بیٹے کی ماں سے درخواست
28 جون 2016ام عصام کے پانچ سالہ بیٹے نے ان سے کہا، ’’ ماں مجھے قتل کردو‘‘۔ اس لڑکے نے یہ فریاد صرف اس لیے کی تھی کہ وہ بہت بھوکا تھا اور یہ درد اس کی برداشت سے باہر ہو چکا تھا۔ ام عصام کو علم تھا کہ اگر انہیں فرار ہونے کا موقع ملا تو وہ کبھی فلوجہ واپس نہیں آئیں گی۔ یہ علاقہ دو سال تک اسلامک اسٹیٹ کے زیر انتظام رہا۔ بیالیس سالہ ام عصام کہتی ہیں، ’’میرا بیٹا بھوک سے اس قدر تنگ آ چکا تھا کہ اس نے مرنے کی فرمائش کر ڈالی۔ وہ تو صرف پانچ سال کا تھا۔‘‘
ام عصام پر اس سے قبل بھی کئی عذاب گزر چکے ہیں۔ دو سال قبل اس وقت ان کا ایک حمل ضائع ہوا، جب فلوجہ کے ہسپتال کے قریب ہونے والے ایک حملے کے بعد افرا تفری پھیلی تھی، ’’میں خوفزدہ تھی، ہر جانب لوگ زندگی بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے اور اس دوران میرے پیٹ میں موجود دو زندگیاں ختم ہو گئیں۔ میں جڑواں بچوں کی ماں بننے والی تھی۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا اور بھوک سے تنگ آ کر انہوں نے ہسپتال کا رخ کیا تھا۔ ام عصام کے نو بچے ہیں۔
وہ آج کل فلوجہ آپریشن کے دوران بے گھر ہونے والوں کے لیے قائم کیے گئے ایک مرکز میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ یہ کیمپ ناروے کا ایک فلاحی ادارہ چلا رہا ہے۔ ام عصام کہتی ہیں، ’’موسم گرم ہے اور دھول مٹی بھی ہے۔ یہاں کھانے اور پینے کی اشیا کی بھی قلت ہے لیکن ہم گزارا کر لیں گے۔‘‘ ان کے بقول وہ واپس نہیں جانا چاہتیں کیونکہ پہلے امریکیوں نے، پھر القاعدہ نے، پھر داعش نے اور آخر میں بھوک نے فلوجہ میں زندگی کو نا ممکن بنا دیا ہے۔ ’’مجھے علم نہیں کو مستقبل میں کیا حالات ہوں گے لیکن یہ شہر برباد ہو چکا ہے اس لیے میں واپس نہیں جاؤں گی۔‘‘
فلوجہ میں عسکری کارروائی تو ختم ہو چکی ہے اور آئی ایس کے جنگجو شہر سے فرار بھی ہو چکے ہیں تاہم شہر اور ملحقہ علاقوں میں انسانی بحران کی کیفیت بدستور موجود ہے۔ عراقی فوج نے اتوار کے روز فلوجہ کی آزادی کا اعلان کیا تھا۔