محروموں کی عید
پاکستان میں رمضان کے بعد عید الفطر کا تہوار ہر مسلمان بڑے جوش و خروش سے مناتا ہے۔ جن کے پاس وسائل ہیں وہ خریداری اور پوری تیاریاں کرتے ہیں لیکن بہت سے غرباء ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی عید محرومی پر مبنی ہوتی ہے۔
رمضان میں پھل کھانا ایک روایت
مہنگائی کے باعث غریب پھل نہیں خرید سکتے حالانکہ روزہ داروں کی خواہش ہوتی ہے کہ بچوں کے لیے افطاری کے وقت کوئی نہ کوئی پھل بھی ضرور موجود ہو۔ پھل اور سبزی فروش تنویر ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسے پھل اگر منڈی سے ہی مہنگے ملتے ہیں تو وہ انہیں سستا کیسے بیچ سکتا ہے۔ اس نے کہا کہ عید پر اسے بھی اپنے بچوں کے نئے کپڑے خریدنا ہوتے ہیں، اگر وہ بھی پھل مہنگا نہ بیچے تو اس کے خاندان کا گزارہ کیسے ہو گا؟
’چترالی بابا‘ عید کیسے منائے گا؟
پچاس سالہ محمد شفیق اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال کے باہر چوکیداری کرتا ہے۔ وہ اسی ہسپتال کے ایک کمرے میں رہتا ہے۔ چترال کا رہنے والا شفیق گزشتہ کئی برسوں سے اس ہسپتال سے منسلک ہے۔ اس کی بیوی اور چار بچے اس کے والدین کے ساتھ گاؤں میں رہتے ہیں۔ اس عید پر ہسپتال کے مالک نے بچوں کے کپڑے بنا کر دیے ہیں اور اسے ایک تنخواہ عیدی کے طور پر بھی دی ہے۔ وہ بہت خوش ہے کہ اس بار عید اپنے گھر جا کر منائے گا۔
کنگھیاں بیچنے والے انور سعید کی عید
سیالکوٹ سے مزرودی کے لیے کئی سال پہلے اسلام آباد آنے والے انور سعید کے تین بچے ہیں اور وہ بڑی مشکل سے ان کا پیٹ پالتا ہے۔ ابھی تو وہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر اسلام آباد میں ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتا ہے، تب کہیں جا کر وہ ماہانا اتنے پیسے بچا پاتا ہے کہ اپنے گھر بھیج سکے۔ انور سعید نے بتایا کہ وہ بہت خوش ہے کہ عید اب آنے ہی والی ہے اور وہ اس موقع پر کئی ماہ بعد اپنے اہل خانہ سے ملے گا۔
غریبوں کے لیے گرم تندور
اسلام آباد کے سیکٹر جی ٹین مرکز میں واقع اس تندور سے کئی خاندان افطاری اور سحری کے لیے مفت روٹی حاصل کرتے ہیں۔ کئی مخیر حضرات روزانہ یہاں غریب شہریوں میں روٹیاں بانٹتے ہیں یا اس تندور کے مالک کو پیسے دے جاتے ہیں کہ وہ خود ہی ضرورت مندوں میں روٹی بانٹ دے۔ اس تندورسے محروم طبقے کے افراد کو آلو، قیمہ اور سبزی بھرے نان بھی ملتے ہیں۔ ضرورت مندوں میں مفت روٹی کی تقسیم کا یہ سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے۔
بھوک کے مارے لوگوں کا ہجوم
یہ لوگ پچھلی تصویر میں نظر آنے والے تندور کے سامنے کھڑے ہیں۔ یہاں سحری اور افطار دونوں وقت کافی ہجوم رہتا ہے۔ ان افراد میں شامل ایک خاتون نے ڈی ڈبلیو کا بتایا، ’’میرا تعلق سوات سے ہے۔ پہلے سوات میں عسکریت پسند تھے پھر فوجی آپریشن شروع ہو گیا تھا۔ ہمارے پاس نہ کوئی روزگار رہا اور نہ کوئی ساز و سامان۔ اب ہمیں دو وقت کی روٹی کی بھی محتاجی ہے۔‘‘
’عید کیا ہوتی ہے‘
بھوک و افلاس سے تنگ یہ پردہ دار خواتین شام سے ہی اپنے بچوں سمیت اس تندور کے سامنے آ بیٹھتی ہیں۔ یہاں سے روٹی ملنے کی آس انہیں کہیں جانے نہیں دیتی۔ ان میں سے ایک خاتون نے بتایا کہ وہ افطاری اور سحری روزانہ اسی جگہ پر کرتی ہیں اور کبھی تو اللہ کا کوئی نہ کوئی یہاں آ کر پھل بھی تقسیم کر دیتا ہے، ’’عید کیا ہوتی ہے، یہ بے روزگار، غریب لوگ کیا جانیں؟ یہ تو امیروں کی عیدیں ہیں۔ وہی منائیں گے۔‘‘
عید تو گھر والوں کے ساتھ ہوتی ہے
امجد خان نامی گارڈ سڑک کنارے بیٹھا گرمی سردی میں اپنا فریضہ انجام دیتا ہے۔ اس کا تعلق ہنزہ سے ہے اور اس کے پانچ بچے ہیں۔ بی اے پاس امجد کو نوکری کی تلاش آٹھ سال قبل اسلام آباد تک لے آئی تھی۔ عید کے ذکر پر امجد کی آنکھیں چمکنے لگیں اور اس نے بتایا کہ اس نے اپنے تمام اہل خانہ کے لیے چھوٹے چھوٹے تحائف لے رکھے ہیں اور عید ہمیشہ وہ ہنزہ ہی میں اپنے خاندان کے ہمراہ مناتا ہے۔
گرمیوں میں تربوز بیچنے کا فائدہ
اسلام آباد کے سیکٹر جی الیون میں سڑک کنارے تربوز بیچنے والے عبداللہ کا تعلق راولپنڈی کے اندرون شہر سے ہے اور اس کے چار بچے ہیں۔ عبداللہ کے بقول عیدالفطر رمضان کے بعد ایک تحفے کی حیثیت رکھتی ہے اور عید پر اس کا گھر خوشیوں سے بھر جاتا ہے۔ عبداللہ نے بتایا، ’’گرمیوں میں میرے تربوز زیادہ بکتے ہیں۔ لوگ تربوز کا جوس گرمی کا اثر کاٹنے کے لیے پیتے ہیں۔‘‘
’چوڑیاں بیچنا اچھا لگتا ہے‘
محمد اکبر اسلام آباد کی ایک چھوٹی سے مارکیٹ میں چوڑیوں کا ایک اسٹال لگائے ہوئے ہے۔ اس نے بتایا کہ اس اسٹال سے اسے روزانہ پانچ سو روپے تک کی کمائی ہو جاتی ہے۔ اکبر کا تعلق جہلم سے ہے اور وہ عید کی چھٹیوں میں جہلم جائے گا، جہاں وہ عید اپنے والدین کے ساتھ منائے گا۔ اکبر نے بتایا، ’’لڑکیوں کو چوڑیوں کا شوق ہوتا ہے۔ جب وہ کسی لڑکی کو چوڑیاں پہناتا ہے تو گاہک کی خوشی سے اسے بھی خوشی ہوتی ہے۔
سخت گرمی میں سڑک کنارے تازہ مچھلی
زاہد خان روزانہ جی الیون میں تازہ پکڑی ہوئی کچی مچھلی بیچتا ہے۔ اس کے بقول اسلام آباد کے لوگ ہر موسم میں مچھلی بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ وہ اپنے آجر کے ساتھ سرگودھا سے آیا تھا اور یہی کام کرتے ہوئے اسے چھ سال ہو گئے ہیں۔ زاہد نے بتایا، ’’میرے تین بہن بھائی ہیں، جن کے لیے عید پر ڈھیر سارے تحفے لے کر گھر جاؤں گا۔ عید الفطر کے موقع پر پورے ایک ہفتے کی چھٹی کے لیے میں سال بھر پیسے جمع کرتا ہوں۔‘‘
اتوار بازار میں خواتین کے لیے اسٹال
شازیہ خانم کو اسلام آباد میں پشاور موڑ پر لگنے والے اتوار بازار میں کام کرتے ہوئے تین سال ہو گئے ہیں۔ وہ چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ عید پر وہ اپنے بچوں کو لے کر اپنے ماں باپ کے گھر لاہور جائیں گی۔ ’’میرا شوہر پانچ سال قبل انتقال کر گیا تھا۔ میں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے محنت کرتی ہوں۔ مجھے فخر ہے کہ اس چھوٹی سی دکان سے بھی میں ماہانہ دس بارہ ہزار روپے کما لیتی ہوں۔‘‘
گلی گلی دودھ بیچتے عمر بیت گئی
اللہ دتہ کا تعلق گجر خان سے ہے۔ پانچ بچوں کا باپ سڑکوں پر سارا دن گرمی، دھوپ اور بارش سے بے نیاز دودھ بیچتا ہے۔ اللہ دتہ ہر سال عید پر اپنے بچوں کے ہمراہ اپنے آبائی شہر جاتا ہے۔ اس نے بتایا کہ بہت زیادہ گرمی کے باعث وہ زیادہ دن گجر خان میں نہیں رک پاتے۔ اللہ دتہ نے کہا، ’’عید کی خوشی تو ہر مسلمان کو ہوتی ہے۔ لیکن منانے کی حد تک اصل خوشی تو بچوں کی ہوتی ہے۔‘‘
عید کا دن بھی ہسپتال میں
عید کی خوشیاں سب گھروں میں ایک سی نہیں ہوتیں۔ اگر گھر کا کوئی فرد بیمار ہو تو عید ہسپتال میں انتظار کرتے یا کسی ڈسپنری کے چکر لگاتے گزر جاتی ہے۔ اس علاج گاہ میں آئی ایک خاتون رضیہ بی بی نے بتایا، ’’اب ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ لکھ کر دیے ہیں۔ لیکن وہ اتنے مہنگے ہیں کہ ہم غریبوں کے پاس ان کے لیے پیسے ہی نہیں ہیں۔ دنیا عید کی تیاریوں میں ہے اور ہمیں اپنی دال روٹی کی فکر لاحق ہے۔‘‘