1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

محمد مرسی کی معزولی کا ایک سال

عدنان اسحاق3 جولائی 2014

تین جولائی 2013ء کو مصر میں محمد مرسی کو معزول کر دیا گیا تھا۔ اخوان المسلون کے سینکٹروں حامیوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس دوران مزاحمت کرنے والے کئی سو افراد کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔

https://p.dw.com/p/1CV0n
تصویر: DW/M.Hashem

اخوان المسلون نے صدر عبدالفتح السیسی کی حکومت کے خلاف اپنی جدوجہد کا مرکز اور طریقہ کار تبدیل کر لیا ہے۔ السیسی مصری فوج کے سابق سربراہ ہیں اور ان کی قیادت میں ہی مرسی کو ان کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔ ابھی تک اخوان المسلون نے مزاحمت کا راستہ اپنائے رکھا تھا، جس کی وجہ سے اسے شدید جانی نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔ تاہم اخوان المسلون نے اب مصر میں ہر ہفتے ایک پر امن مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے۔

اس تنظیم کے ایک بیس سالہ کارکن نے اپنا نام خفیہ رکھتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا ، ’’مرسی کی معزولی کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین سے اگر یہ کہا جائے کہ جو کچھ ہوا اسے بھول جائیں، تو ایک ہنگامہ برپا ہو جائے گا‘‘۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ حکومت کے ساتھ مصالحت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور جدوجہد جاری رکھنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

Ägypt Präsident Abdel Fattah al-Sisi in Kairo 08 Juni 2014
السیسی مصری فوج کے سابق سربراہ ہیں اور ان کی قیادت میں ہی مرسی کو ان کے عہدے سے ہٹایا گیا تھاتصویر: Reuters

ماضی میں بھی اخوان المسلمون کو مصر میں پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ماہرین کے بقول تاہم اس مرتبہ اس تنظیم کے کارکنوں نے مزاحمت کرنے کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ واشنگٹن میں بروکنگز انسٹیٹیوٹ سے منسلک شادی حامد کہتے ہیں کہ گزشتہ برسوں کے دوران صرف محاذ آرائی ہی دیکھی گئی ہے۔ ان کے بقول ملک کے لیے پالیسیاں تیار کرنے کے بجائے ہر جانب صرف مظاہرے ہی ہوتے رہتے تھے، جس سے مصر میں حکومت کرنا ناممکن ہو گیا تھا۔ شادی حامد مزید کہتے ہیں کہ اخوان المسلمون کے کسی رہنما سے اگر یہ پوچھا جائے کہ انہوں نے فوج کی پشت پناہی والی موجودہ حکومت کو ہٹانے کے لیے کیا حکمت عملی تیار کی ہے تو ان کے پاس اس کا کوئی واضح جواب نہیں ہے۔

فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے سکریٹری محمد سودان کے خیال میں مصری عوام اس طرح کے مظاہرے کرتے ہوئے ایک دن السیسی کو بھی ان کے عہدے سے ہٹنے پر مجبور کر دے گی۔ فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی اخوان المسلون کا سیاسی بازو ہے۔ لندن میں مقیم سودان مزید کہتے ہیں کہ السیسی کو مختلف طرح کے مسائل کا سامنا ہے اور ان میں سلامتی اور اقتصادی مشکلات نمایاں ہیں۔ ان کے بقول السیسی سمجھتے ہیں کہ وہ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے سب کچھ ٹھیک کر لیں گے لیکن 90 ملین آبادی والے ملک کواس طرح سے نہیں چلایا جاتا۔

سودان کی طرح اس تنظیم کے کئی رہنما مصر سے فرار ہو کر برطانیہ، ترکی اور قطر میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

ملک بھر میں اپنی حمایت میں اضافہ کرنے کے لیے اخوان المسلون نے ہر ہفتے مظاہرہ کرنےکا اعلان تو کر رکھا ہے لیکن دوسری جانب اس اسلامی گروپ کے دورے حکومت کے دوران ملک میں جاری افراتفری کی وجہ سے شہریوں کی ایک بڑی تعداد ان سے نالاں بھی ہے۔