محمود درویش : عربی زبان و ادب کے نمائندہ شاعر
12 اگست 2008محمود دورویش کو عصر حاضر کےعربی ادب کا نمائندہ شاعر تصور کیا جاتا ہے۔ اُن کی عظمت کا گواہ تو آنے والے زمانہ ہو گا کہ اُن کے لکھے شعر کتنا عرصہ زندہ رہتےہیں لیکن ناقد ین اُن کو بیسویں صدی کے انتہائی معتبر نام قرار دیتے ہیں۔ اُن کی شاعری میں جنتِ گُم گشتہ یعنی سن اُنیس سو اڑتالیس اور پھر سن اُنیس سو سڑسٹھ میں مقبُوضہ ہو جانے والےارضِ فلسطین کا دُکھ اور صدمہ کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا ہے۔
پندرہ مارچ سن اُنیس سواکیالیس میں شمالی اسرائیل کے علاقے گلیلی کے ایک گاؤں میں پیدا ہونے محمود درویش کا کئی برسوں عارضہ قلب میں مبتلا رہنے کے بعد نو اگست کو انتقال ہوا۔ اُن کے مداحوں کا خیال ہے کہ فلسطین کی آزادی کا خواب اُن کو قبر میں بھی چین کی نیند سونے دے گا۔ مغربی کنارے میں محمود عباس کی حکومت تو محمود درویش کو فلسطینی ثقافت کا چلتا پھرتا شاہکار تصور کرتی ہے۔ وہ فلسطین کے قومی ترانے کے بھی خالق ہیں۔ سن اُنیس سو ترانوے میں اُنہوں نےخود سے فلسطینی عوام کے لئے ایک ایک منشور بھی مرتب کیا تھا۔ وہ اوسلو معائدے تک فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کی ایکزیکٹو کمیٹی کے رکن رہے۔
محمود درویش جس طرح ایک بے باک شاعر تھے ایسے ہی اُن کے سیاسی نظریات تھے۔ ہر معاملے پر وہ ایک مخصوص نکتہ نظر رکھتے تھے اور اُن کا مسلسل اظہار بھی کرتے رہےے۔ وہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے حامی ضرور تھے مگر وہ اِس میں سخت مؤقف کے حامی رہے۔ فلسطینی قیادت پر تنقید کرتے رہے۔ حماس اور الفتح کی اندرونی چپقلش کے بھی کڑے ناقد تھے اور اِس کو فلسطینی مسئلے کے لئے سخت نقصان دہ تصور کرتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ عربی شاعری کا دامن قصیدہ گوئی یا مرثیوں سے بھرا ہے۔ امراؤ القیس سے لیکر محمود درویش تک مرثیے کا رنگ بہر طور عربی شاعری میں بہت زیادہ میّسر ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اِس کی صورت بدلتی رہی ہے کبھی یہ عزیزوں کے لئے تو کبھی وطن سے جدائی پر۔ دوسرا پہلُو درویش کی شاعری میں بدرجہ اتم دکھائی دیتا ہے۔ اُن کے تیس کے قریب شاعر کے مجموعے ہیں اور تقریباً ہر شعری سطر مقبوضہ فلسطین کے دُکھ کا اظہار کرتی ہے۔ اِسی مناسبت سے اُن کو فلسطین کی سانس کہا گیا اور تمام فلسطینیوں کے احساسات درویش نے اپنے شعروں میں سموڈالے ہیں۔
اُن کی شاعری کی طرح اُن کے مجموعوں کے نام بھی چونکا دینے والے ہیں مثلاً بے بال و پر پرندے، زیتون کے پتے، انجام شب، بندوق کی روشنی میں لکھنا، گلیلی میں پرندے مر رہے ہیں، دور کی خزاں میں اترنے والی ہلکی بارش، اجنبیوں کا بستر اور وہ ایک جنت تھی وغیرہ وغیرہ۔
کسی طور یہ کہا جاسکتا ہے کہ درویش نے قدیمی عربی شعراء کی شعری روایت کو پوری طور اپنے اوپر غالب نہیں ہونےدیا۔ اِس کی ایک اہم اور بنیادی وجہ معروضی حالات کا فرق بھی تھا۔ دوسرے جس دور میں وہ شعر کہتے تھے اُس میں پابند غزل کی جگہ جدید نظم نے لے لی تھی۔ اِس مناسبت سے بیسویں صدی کے بصرہ سے تعلق رکھنے والے عراق کےعربی زبان کےعظیم شاعر بدر شاکر السیاب اور گزشتہ صدی کے بغداد کے استاد شاعر عبد الوہاب البیتی کی شعری انداز کے امین قرار دیئے جا سکتے ہیں۔
محمود درویش اردو ادب کے عظیم شاعرمرزا اسد اُللہ خان غالب کی طرح بڑے انا پرست تھے لیکن ایسے میں وہ معروف یہودی شاعری یہودا آمی شائی کے طرز کلام کے بھی مداح تھے اور اُن کو اپنا مد مقابل تصور کرتے تھے۔ درویش کےخیال میں یہ آنے والا وفت تعین کرے گا کہ ایک ہی زمین کے لئے آمی شائی کے خیالات معتبر قرار پائیں گے یا اُن کے۔
اپنے وطن سے بے وطنی کا عذاب تمام عمر اُن کے ساتھ رہا حتیٰ کہ موت بھی دور امریکہ میں آئی۔ اُنیس سال میں اپنا پہلا مجموعہ اسرائیلی شہر حیفہ میں شائع کروانے کے بعد وہ لبنان اور پھر سوویٹ یونین پہنچے، ایک سال ماسکو یونی ورسٹی میں پڑھتے رہے لیکن بے چین طبیعت وطن کی محبت کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی سو مصر سکونت اختیار کرلی جہاں وہ مشہور اخبار الاہرام میں ملازم بھی رہے۔ سن اُنیس سو تہتر میں انہوں نے یاسر عرفات کی تنظیم پی ایل او میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ سن اُنیس سو پچانوے سے وہ فلسطینی علاقے رام اللہ میں رہائش پذیر تھے۔
محمود درویش نے شاعری صرف عر بی زبان میں کی تھی لیکن وہ انگریزی، فرانسیسی اور عبرانی بڑی روانی سے بولتے تھے۔
اُن کو کئی ادبی انعامات سے نوازا گیا جن میں لوٹس پرائز کے علاوہ فرانسیسی حکومت کا ایک اعلیٰ تمغہ بھی شامل ہے۔ اُن کے شعری مجموعے کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں اُن کی شاعری پر کئی ایک طویل مضامین اردو جریدوں میں شائع ہونے کی وجہ سے وہ ادبی حلقوں میں پہچانے جاتے ہیں۔ اُن کی نظموں میں عربی ادب کی روایت کے مطابق غنائیت کا عنصر بے بہا تھا اور اِسی وجہ سےعرب دنیا کے نمایاں موسیقاروں نے اُن کو خاص انداز میں کمپوز بھی کیا۔