1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مختاراں مائی کی زندگی پر امریکا میں اوپرا شو

عاطف بلوچ اے ایف پی
17 جون 2017

پندرہ برس قبل اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنائی جانے والی مختاراں مائی نے امریکا میں ایک ایسے اوپرا میں شرکت کی، جو اسی پاکستانی خاتون کی کہانی سے متاثر ہو کر تیار کیا گیا ہے۔ اس شو میں مختاراں مائی کی جدوجہد بیان کی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/2erLL
Pakistan Fashion Week Mukhtar Mai
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Adil

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ امریکی شہر لاس اینجلس میں ہونے والے اس اوپرا شو میں مختاراں مائی کی موجودگی کو بہت سراہا گیا۔ ’’تھمب پرنٹ‘‘ نامی اس اوپرا میں جنوبی پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنائے جانی والی مختاراں مائی کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔ اوپرا کی انتظامیہ کے مطابق اس کا مقصد ایسی خواتین کی حوصلہ افزائی کرنا ہے، جو اس طرح کی مشکلات کا شکار ہوتی ہیں۔

’پاکستان فیشن ویک‘ مختار مائی کی علامتی شرکت

مختاراں مائی پر نیویارک میں اوپیرا

اسرائیل میں مختارمائی کی کتاب کا چرچا

اس اوپرا میں شرکت کے بعد مختاراں مائی نے صحافیوں کو بتایا، ’’اس اوپرا کے آغاز پر میں بہت زیادہ جذباتی ہو گئی تھی۔‘‘ اردو زبان میں انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ تاہم جیسے جیسے اوپرا کی کہانی آگے بڑھی، تو انہیں حوصلہ ملا۔ جمعہ 16 جون کی رات منعقدہ اس اوپرا شو کو دیکھنے کی خاطر لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔

کمپوزر کاملا سنکرم اور غنائیہ نگار سوزن یانکووٹز کے اس اوپرا میں مختاراں مائی کے ساتھ ہونے والی اجتماعی زیادتی اور بعد ازاں مختاراں مائی کی جدوجہد کو موضوع بنایا گیا۔ اس اوپرا کو پہلی مرتبہ سن دو ہزار چودہ میں نیو یارک میں اسٹیج کیا گیا تھا تاہم ابھی تک مختاراں مائی نے خود اس شو میں شرکت نہیں کی تھی۔

Mukhtar Mai
اس اوپرا شو میں شرکت کے لیے مختاراں مائی خصوصی طور پر امریکا گئیںتصویر: Fabrice Coffrini/AFP/Getty Images

مختاراں مائی نے سن دو ہزار نو میں شادی کر لی تھی اور اب ان کے تین بچے بھی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی کہانی ان کے گاؤں کی خواتین کے لیے ایک مثال بنی اور ان خواتین نے اپنے حقوق کے حصول کی خاطر حوصلہ دکھایا۔ مختاراں مائی کو زیادتی کا نشانہ بنانے والے افراد کو سزائے موت سنائی گئی تھی تاہم اپیل کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔ اس بابت مختاراں مائی کافی مایوس ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ پاکستان کا قانونی نظام شاید انہیں کبھی انصاف فراہم نہیں کر سکے گا۔

مختاراں مائی کے بقول، ’’وہ چار افراد جنہوں نے مجھے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور گاؤں کی کونسل کے وہ دو سردار جنہوں نے مجھے جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا حکم دیا تھا، وہ اب بھی آزاد ہیں۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ اب بھی انہیں مختلف ذرائع سے دھمکیاں موصول ہوتی رہتی ہیں اور وہ اپنے بچوں کی سلامتی کے لیے پریشان رہتی ہیں۔ مختاراں مائی نے مزید کہا کہ اگر انہیں یا ان کے بچوں کو کچھ ہوتا ہے تو اس کی ذمہ دار حکومت پاکستان ہو گی۔