مختاراں مائی کیس، موکلہ کی اپیل مسترد
21 اپریل 2011جمعرات کو فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے پانچ ملزمان کو بری کر دیا جبکہ ایک کی عمر قید برقرار رکھی۔ چالیس سالہ مختاراں مائی نے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف کسی بھی قسم کی اپیل دائر نہیں کریں گی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ان ملزمان کے بری ہونے کے بعد ان کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔ مائی نے کہا کہ اس کے باوجود وہ اپنا گاؤں یا ملک چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتیں۔
2002ء میں مقامی پنچایت کی طرف سے حکم جاری ہونے کے بعد مختاراں مائی کو اجتماعی آبروریزی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ مائی کا قصور یہ تھا کہ ان کے بارہ سالہ بھائی نے حریف قبیلے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کیے تھے۔ مختاراں مائی کے بقول ان کی آبروریزی میں چودہ افراد ملوث تھے۔ یہ واقعہ جنوبی پنجاب کے شہر مظفر گڑھ کے میرا والا نامی علاقے میں پیش آیا تھا۔
جب مختاراں مائی نے عدالت سے رجوع کیا تو انسداد دہشت گردی کی ایک مقامی عدالت نے آٹھ ملزمان بری کر دیے جبکہ چھ ملزمان کو سزائے موت سنا دی۔ جب سزا یافتگان نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تو لاہور ہائی کورٹ نے مارچ 2005ء میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ان میں سے پانچ کو بری کر دیا جبکہ ایک کی سزائے موت عمر قید میں بدل دی۔
ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد مائی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ سپریم کورٹ کے چار رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی۔ اس دوران مختاراں مائی کیس کو نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی مقبولیت حاصل ہو گئی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملتان شہر میں کم ازکم سو افراد نے مختاراں مائی کے حق میں جلوس نکالا۔ انسانی حقوق کے اداروں نے بھی عدالتی فیصلے پر مایوسی کا اظہارکیا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے مائی نے کہا ہے کہ وہ اللہ کی عدالت پر یقین رکھتی ہیں اور انہوں نے اب یہ معاملہ اس پر ہی چھوڑ دیا ہے۔
پاکستان میں حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن کے مطابق 2010ء کے دوران پاکستان بھر میں ہزاروں عورتوں کی عزت لوٹی گئی جبکہ دو ہزار سے زائد کو اغوا کیا گیا اور پندرہ سو ہلاک کر دی گئیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: امجد علی