مدتوں سے منتخب رہنماؤں کی مدت پوری نہیں ہوئی
10 مارچ 2022عموما یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی مدت پوری کی لیکن سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے بھی بحیثیت وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کی تھی کیونکہ انیس سو تہتر کے آئین کی تشکیل کے بعد اسمبلی کی مدت پانچ سال کے لیے تھی لیکن بھٹو کو پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کی وجہ سے قبل از وقت انتخابات کرانے پڑے، جس میں ان پر دھاندلی کا الزام لگایا گیا۔
بیرونی طاقتوں پر الزام
ذوالفقارعلی بھٹو کو جب اقتدار سے نکالا گیا تو پی پی پی نے الزام جہاں کئی طاقتوں پر لگایا وہیں بیرونی طاقتوں پر بھی الزام لگایا گیا۔ انیس سوننانوے میں جب نواز شریف کو اقتدار سے باہر کیا گیا تو ن لیگ کے کچھ حلقوں کا بھی یہ ہی دعوی تھا کہ کیونکہ نوازشریف نے جوہری دھماکوں کے مسئلے پر کوئی دباؤ قبول نہیں کیا تھا، اس لیے انہیں اقتدار سے نکالا گیا۔ ان کو نا اہل کیے جانے پر بھی اسی طرح کے الزامات لگائے گئے۔ گو کہ اس مرتبہ اشارہ کسی مغربی نہیں بلکہ ایک عرب ملک کی طرف تھا۔
آج پی ٹی آئی بھی یہی تاثر دے رہی ہے کہ یورپی طاقتیں اور امریکہ عمران خان کے خلاف ہے اور وہ انہیں نکالنے کی سازشیں کررہے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کا رویہ
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ وزیر اعظم اگر اپنی مدت پوری نہیں کر پاتے، تو اس میں قصور سیاسی جماعتوں کا بھی ہے۔ واضح رہے کہ ماضی میں ن لیگ اور پی پی پی نے ایک دوسرے کی حکومتوں کے خلاف احتجاج اور لانگ مارچ غیر سیاسی قوتوں کے اشارے پر کیے۔ ملک کے کئی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ آج جے یوآئی، ن لیگ اور پی پی پی بھی غیر مرئی قوتوں کے اشارے پر عمران خان کے خلاف صف آراء ہو رہی ہیں، جو ملک میں جمہوریت کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ یہ افسوناک بات ہے کہ سیاسی جماعتیں عوام کی نظروں میں کسی اور کی بولی بولتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’جب عمران خان اقتدار میں آئے تو یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ اپنی مدت پوری کریں گے لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ شاید ایسا نہ ہو۔ عمران اگر مدت پوری نہیں کرتے تو یہ سوال اہم ہوگا کہ آیا آنے والی حکومتیں بالکل با اختیار ہوں گی یا نہیں۔‘‘
عمران خان کو ہٹانے کی کوشش میں جہاں ن لیگ پیش پیش ہے، وہاں پی پی پی بھی پیچھے نہیں۔ پی ٹی آئی کے کئی حلقے پی پی پی اور حزب اختلاف کی دوسری جماعتوں پر جوڑ توڑ کا الزام لگارہے ہیں۔ لیکن پی پی پی کا کہنا ہے کہ عمران خان کی غلط پالیسیاں ان کے زوال کا سبب ہیں۔ پی پی پی کے رہنما اور سابق ڈپٹی اسپیکر سینیٹ صابر بلوچ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’عمران خان کا رویہ غیر سیاسی ہے۔ حزب اختلاف ذوالفقار علی بھٹو کے بھی بہت خلاف تھی لیکن بھٹو نے ان سے بات چیت کرنے کی کوشش کی جب کہ عمران خان انا پرست ہیں اور وہ حزب اختلاف سے کوئی بات چیت کرنا نہیں چاہتے۔‘‘
صابر بلوچ کے مطابق ایسے میں معاملات حل نہیں ہو سکتے۔ ’’ان کا طرز حکمرانی بہت خراب ہے اور جو لوگ انہیں اقتدار میں لائے تھے، انہیں اپنی غلطی کا بھی احساس ہو گیا ہے۔‘‘
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار سجاد مہدی کا کہنا ہے کہ یہ افسوسناک بات ہے کہ کوئی وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کرپایا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’لیکن عمران خان کا معاملہ مختلف ہے۔ انہوں نے اقتدار اعلیٰ کا سودا کر کے اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے کردیا ہے۔ جب کہ مہنگائی نے عوام کا جینا مشکل کردیا ہے۔ ایسے میں اگر یہ ٹکتے ہیں تو ملک کا مزید برا حال ہوگا۔‘‘
پارلیمنٹ کے ذریعے ہٹانا درست ہے
سجاد مہدی کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان کو پارلیمنٹ کے ذریعے ہٹایا جاتا ہے تو یہ درست ہوگا۔ ’’ لیکن اگر کسی وزیر اعظم کو غیر پارلیمانی طریقے سے ہٹایا جاتا ہے، جیسے کہ نواز شریف اور گیلانی کو عدالتوں کے ذریعے ہٹایا گیا، تو وہ غلط روایت ہے۔ لیکن پارلیمنٹ کے ذریعے ہٹانے کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ برتر ہے۔‘‘