1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مدر ٹریسا نے انسانوں کی خدمت کی، آج لوگ اُنہیں پوجتے ہیں

Cosima Gill / امجد علی4 ستمبر 2016

بھارتی شہر کولکتہ کے باسیوں کی نظر میں مدر ٹریسا بہت پہلے سے سینٹ کا وہ درجہ حاصل کر چکی ہیں، جس کا اعلان کیتھولک کلیسا کی جانب سے آج بروز اتوار کو کیا جانے والا ہے۔ اس موقع پر مدر ٹریسا کی خدمات کو یاد کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1JtSy
Indien Mutter Teresa mit einem kranken Kind in Kalkutta
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press

جمیل ساگر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ 1995ء میں، جب وہ بطور ایک نوجوان صحافی مدر ٹریسا پر بہت کچھ لکھ چکے تھے، اُن کی اس عظیم خاتون سے ملنے کی خواہش ایک روز اچانک اُس وقت پوری ہوئی، جب وہ اپنی موٹر سائیکل ایک ورکشاپ پر چھوڑنے گئے۔ مدر ٹریسا نیلی اور سفید ساڑھیوں میں ملبوس خواتین کے ایک گروپ کے ہمراہ اُس ورکشاپ کے قریب ہی کھڑی تھیں:’’میں صرف اُن کی دعا لینا چاہتا تھا۔ میں نے سگریٹ پھینکی اور جا کر اُن کے پاؤں چھُو لیے۔ جب اُنہوں نے میری پیشانی کو چھُوا تو میں بہت نروس تھا۔ اُن کی وہ پُر تپاک مسکراہٹ مجھے آج تک نہیں بھولی۔‘‘

Indien Skulptur von Mutter Teresa
بھارت میں مدر ٹریسا کا ایک مجسمہتصویر: Jamil Saagar

کولکتہ کے زیادہ تر باسی مدر ٹریسا کو اسی طرح سے یاد کرتے ہیں اور انہیں ’کولکتہ کا ضمیر‘ بھی کہتے ہیں۔ یہیں مدر ٹریسا نے عشروں تک غریب ترین انسانوں اور بیماروں کی دیکھ بھال کی۔ اُن کی 1950ء میں قائم کردہ تنظیم آرڈر آف دی مشنریز آف چیریٹی کے تحت آج بھی ننیں خواتین، یتیم بچوں اور ضرورت مند افراد کے لیے اُنیس مراکز چلا رہی ہیں۔

البانیہ سے تعلق رکھنے والی مدر ٹریسا، جن کا اصل نام ایگنس گون کابوہیک یو تھا، 1929ء میں اُنیس برس کی عمر میں بھارت گئی تھیں اور پھر بھارت ہی اُن کا وطن بن گیا۔ 1979ء میں اُنہیں اُن کی خدمات کے لیے امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔

نئی دہلی کے پادری ساواریموتھو شنکر کے مطابق ’بھارت میں کیتھولک کلیسا اور مدر ٹریسا لازم و ملزوم بن چکے ہیں‘۔ اُن کے خیال میں مدر ٹریسا نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ کلیسا محض ایک مذہبی ادارے سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

مدر ٹریسا کو تنقید اور الزامات کا بھی سامنا رہا، مثلاً یہ کہ وہ ہر بھلے بُرے انسان سے پیسہ لے لیتی تھیں یا یہ کہ ضرورت مندوں کا مذہب تبدیل کرنا چاہتی تھیں۔ حال ہی میں ایک بھارتی سیاستدان نے کہا کہ مدر ٹریسا ایک سازش کا حصہ تھیں، جس کا مقصد بھارت میں مسیحیت پھیلانا تھا۔

بھارتی خاتون صحافی اجیتا مینن خود ہندو ہیں، اُن کے شوہر مسلمان۔ مدر ٹریسا کے ساتھ کئی انٹرویوز کرنے والی مینن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ’مدر ٹریسا نے کبھی کسی سے تبدیلیٴ مذہب کی بات نہیں کی‘۔

اتوار چار ستمبر کو مدر ٹریسا کے لیے سینٹ کے درجے کا اعلان کیے جانے کے موقع پر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج بھی ایک بڑے وفد کے ساتھ ویٹی کن میں موجود ہوں گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں