1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مذہبی شناخت واضح کی جائے‘ کیا نشانہ احمدی ہیں؟

10 مارچ 2018

پاکستانی کی ایک عدالت نے حکم دیا ہے کہ شناختی دستاویزات کے حصول کے لیے تمام شہریوں کو لازمی طور پر اپنا مذہب بتانا ہو گا۔ انسانی حقوق کے کارکنان کے مطابق یہ پیشرفت اقلیتی کمیونٹی کے لیے ایک اور دھچکا ثابت ہو گی۔

https://p.dw.com/p/2u509
Pakistan Wahlen  Ahmadi
تصویر: Reuters/S. Sayeed

 پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم ہائی کورٹ کی طرف اس فیصلے پر انسانی حقوق کے کارکنان نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پیشرفت سے بالخصوص پاکستان میں آباد احمدی اقلیتی کمیونٹی کے لیے خطرات بڑھ جائیں گے۔

’توہین رسالت کا قانون‘، پاکستان پر دباؤ بڑھتا ہوا

'پاکستانی احمدی کمیونٹی سیاسی مقاصد کے لیے بطور قربانی کا بکرا‘

’احمدیوں سے جینے کا حق بھی چھین لیا جائے‘

پاکستان میں اس کمیونٹی کو خود کو مسلمان قرار دینے کی ممانعت ہے۔ یہ پاکستانی شہری اپنی عبادات کے دوران اسلامی علامات کی کھلے عام تشہیر بھی نہیں کر سکتے۔ اگر ایسا کیا جائے تو پاکستان کے ’توہین مذہب‘ کے قوانین کے تحت انہیں سخت سزائیں بھی دی جا سکتی ہیں۔

’یہ حکومت بھی توہین مذہب کے معاملے کو نظر انداز کر رہی ہے‘

اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعے کے دن ایک فیصلے میں کہا کہ ایسے شہری جو اپنی مذہبی وابستگی کو پوشیدہ رکھتے ہیں، وہ دراصل ریاست کے ساتھ دھوکا دہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازمتوں کے لیے اپلائی کرتے وقت تمام شہریوں کو اپنا عقیدہ ظاہر کرنا چاہیے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے حکم سناتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان کو خصوصی اقدامات اٹھاتے ہوئے تمام شہریوں کے درست کوائف کی دستیابی ممکن بنانا چاہیے، ’’ایسا ممکن نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی شہری اپنی درست شناخت اور مذہبی وابستگی چھپائے۔‘‘ اگر اس فیصلے کے خلاف کوئی اپیل نہ کی گئی تو ریاست کو اس حکم نامے پر عمل کرنا ہو گا۔

دو سو آٹھ ملین نفوس پر مشتمل اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اکثریت مسلمان ہے جبکہ اس میں صرف تین فیصد نفوس ہی اقلیت میں آتے ہیں۔ پاکستان میں سن 1974 میں احمدی کمیونٹی کو غیر مسلم  قرار دینے کے بعد سے ان افراد کے خلاف تشدد کے واقعات معمول سے رونما ہو رہے ہیں۔ اس کمیونٹی سے وابستہ لوگوں کا خود کو مسلمان قرار دینا بھی ’توہین مذہب‘ کے زمرے میں آتا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ سے وابستہ سروپ اعجاز کے مطابق اس فیصلے کے تحت پاکستان کی تمام اقلیتوں کا نشانہ بنانے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ صرف احمدی کمیونٹی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے عدالتی فیصلے سے ’تشدد میں اضافہ ہی ہو گا’۔

انسانی حقوق کے کارکن اور وکیل جبران ناصر کے بقول اس عدالتی فیصلے کا مقصد صرف یہ ہے کہ پتا چلایا کہ کون احمدی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر روز ریاستی سطح پر اس کمیونٹی کو احساس دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ ایک اقلیت ہے۔

ع ب/ روئٹرز