1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مذہبی نسل کشی کے شیطان کو بند کیا جائے‘: انتونیو گوئتیرس

کشور مصطفیٰ7 مارچ 2014

اقوام متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین نے کہا ہے کہ ’ہماری نگاہوں کے سامنے‘ بحران زدہ وسطی افریقی جمہوریہ کے مغرب میں آباد مسلمانوں کی اکثریت کو علاقہ چھوڑ دینے پر مجبور کیا گیا ہے اور ہزاروں افراد کی جان کو خطرات لاحق ہیں۔

https://p.dw.com/p/1BLf1
تصویر: Issouf Sanogo/AFP/Getty Images

عالمی ادارے کی مہاجرین کے امور سے متعلق ایجنسی نے یہ انتباہ وسطی افریقی جمہوریہ کے وزیر خارجہ کی طرف سے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل سے ہنگامی بنیاد پر یو این امن فورس بھیجنے کی اپیل کے تناظر میں کیا ہے۔

سابقہ فرانسیسی نوآبادی، وسطی افریقی جمہوریہ میں ایک سال قبل اس ملک کے شمالی حصے سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر مسلمان باغیوں کے اتحاد ’’سلیکا‘‘ کی طرف سے حکومت پر قبضے کے بعد سے اب تک ہزاروں افراد کی جانیں ضائع ہو چُکی ہیں۔

گزشتہ برس دسمبر میں حالات میں مزید کشیدگی اُس وقت پیدا ہوئی جب زیادہ تر مسیحی عقیدے سے تعلق رکھنے والوں پر مشتمل ملیشیا فورس ’’اینٹی بلاکا‘‘ یا بلاکا مخالف نے سلیکا اتحاد سے تعلق رکھنے والے باغیوں کے خلاف اپنی انتقامی کارروائی کو طور پر مسلمان آبادی پر بھی حملے شروع کر دیے۔ اقوام متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین انتونیو گوئتیرس نے گزشتہ روز یعنی جمعرات کو 15 رکنی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک اجلاس سے خطاب میں کہا، ’’دسمبر کے آغاز سے ہم غربت اور بحران کی شکار وسطی افریقی جمہوریہ CAR میں مسلمان آبادی کی اکثریت کا مؤثر طریقے سے صفایا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔‘‘

Zentralafrikanische Republik Muslime Flüchlinge Gewalt 20.01.2014
وسطی افریقی جمہوریہ کے مسلمان مہاجرینتصویر: picture alliance/Amnesty International

انہوں نے مزید کہا، ’’ہزاروں مسلمان یہ ملک چھوڑ چُکے ہیں، موجودہ بحرانوں میں یہ ہجرت کرنے والوں کا دوسرا بڑا بہاؤ ہے۔ جو مسلمان باشندے وسطی افریقی جمہوریہ میں رہ گئے ہیں انہیں مسلسل خطرات کا سامنا ہے۔‘‘

سلامتی کونسل اقوام متحدہ کی اُس تجویز پر غور و خوض کر رہی ہے جس میں اس ملک کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے وہاں قریب 12 ہزار فوجیوں پر مشتمل ایک مضبوط امن فورس کی تعیناتی کی بات کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے بقول، ’’وسطی افریقی جمہوریہ میں نسلی اور مذبی بنیادوں پر نسل کشی کا عمل جاری ہے۔‘‘

اگر سلامتی کونسل نے تجویز منظور کر لی تو وسطی افریقی جمہوریہ میں اقوام متحدہ کی امن فورس موسم گرما کے اواخر تک کہیں فعال ہو سکے گی۔

Zentralafrikanische Republik Muslime Flüchlinge Gewalt 12.02.2014
مہاجرین کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہےتصویر: picture alliance/AA

اقوام متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین انتونیو گوئتیرس کے بقول، ’’محض گزشتہ ہفتے وسطی افریقی جمہوریہ کے 18 مغربی مقامات میں قریب 15 ہزار افراد کرسچین عقیدے سے تعلق رکھنے والوں پر مشتمل ملیشیا فورس ’’اینٹی بلاکا‘‘ کی طرف سے گھیر لیے گئے تھے اور انہیں حملوں کے شدید خطرات کا سامنا تھا۔‘‘ گوئیترس کے مطابق گزشتہ برس تک CAR میں مذہبی تنازعات نہیں پائے جاتے تھے۔ تاہم دسمبرمیں ہونے والی خونریزی نے مسلح گروپوں کو مذہب کو بہانا بنانے اور اسے سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنے کا موقع فراہم کر دیا۔

یورپی یونین ایک ہزار فوجیوں پر مشتمل فورس CAR میں متعین کر رہی ہے جو اس ملک میں تعینات چھ ہزار افریقی اور دو ہزار فرانسیسی فوجیوں پر مشتمل فورس میں شامل ہو جائے گی۔