مردانہ بانجھ پن کی وجہ بننے والی جینیاتی تبدیلی دریافت
6 اگست 2009آکسفورڈ یونیورسٹی لندن، گینٹ یونیورسٹی بیلجیئم اور امریکہ کی میساچوسیٹس یونیورسٹی کے ماہرین کی اس مشترکہ تحقیق کے نتائج کو ایسے جوڑوں کے لیے امید کی کرن قرار دیا جا رہا ہے، جو آئی وی ایف طریقہء علاج کے باوجود والدین نہیں بن سکے۔
آئی وی ایف طریقہء علاج کو عرف عام میں ٹیسٹ ٹیوب کا طریقہ بھی کہا جاتا ہے۔ نئی دریافت سے ایک طرف تو مردوں میں بانچھ پن کا علاج ممکن ہوجائے گا، دوسری طرف اس دریافت کو مردوں میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت ختم کرنے یعنی مردانہ مانع حمل طریقے کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکے گا۔
مردانہ سپرم کے ڈی این اے میں یہ تبدیلی یا میوٹیشن ایک ایسے شخص میں پائی گئی، جس کے سپرم یا نطفے میں خامی موجود تھی اور اس کا گینٹ یونیورسٹی کے کلینک میں آئی وی ایف علاج ناکام ہو چکا تھا۔
یہ میوٹیشن، سپرم میں موجود ایک خاص پروٹین پی ایل سی زیٹا میں پائی گئی ہے۔ موجودہ دریافت میں، جس میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین نے اہم کردار ادا کیا ہے، یہ پتہ چلایا گیا ہے کہ سپرم جب بیضے کو زرخیز یا فرٹیلائز کرتا ہے، تو وہ پی ایل سی زیٹا کو بیضے میں منتقل کر دیتا ہے۔ یہ پروٹین ایک خاص عمل کا آغاز کرتا ہے، جسے ایگ ایکٹیویشن کہا جاتا ہے۔ اِس کے بعد وہ تمام حیاتیاتی عوامل اور تبدیلیاں وقوع پذیر ہونا شروع ہو جاتی ہیں، جو ایمبریو بننے اور اس کی نشونما کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے فارماکولوجی شعبے کے ڈاکٹر جان پارینگٹن کا کہنا ہے کہ بیضہ فرٹیلائز یا زرخیز ہونے سے قبل ایک رکی ہوئی اینیمیشن کی طرح ہوتا ہے، جس میں ایمبریو کی نشونما کے لئے ضروری تمام حیاتیاتی عوامل رکے ہوئے ہوتے ہیں۔"
وہ مزید کہتے ہیں کہ" جس لمحے سپرم کا بیضے سے ملاپ ہوتا ہے اور وہ اسے زرخیز کرتا ہے، اس بیضے میں جیسے جان سی پڑ جاتی ہے، بالکل کہانی کی طرح گویا جیسے ایک شہزادہ آ کر کسی سوتی ہوئی شہزادی کو نیند سے جگا دے"۔
اس تحقیق میں شامل محققین نے ایسے 9 مختلف لوگوں کے سپرمز کے نمونے حاصل کئے، جن کے آئی وی ایف طریقہء علاج کے باوجود سپرمز نے بیضے کو فرٹیلائز نہیں کیا تھا۔ دراصل آئی وی ایف طریقے میں سپرم کا بیضے سے رحم مادر سے باہر لیبارٹری میں ملاپ کروایا جاتا ہے اور جب بیضہ فرٹیلائز ہوجاتا ہے تو اسے رحم مادر میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ طبی ماہرین نے ان تمام نو افراد کے سپرمز میں جو خاص بات نوٹ کی، وہ یہ تھی کہ سپرمز بیضے میں ایگ ایکٹیویشن کے عمل کو شروع نہیں کر پائے تھے۔
لئے جانے والے سیمپلز میں پروٹین پی ایل سی زیٹا کتنا متحرک تھا، یہ جاننے کے لئے سائنس دانوں نے تجربات کا جو سلسلہ شروع کیا، اُس میں ایک شخص کے پی ایل سی زیٹا میں آنے والی جینیاتی تبدیلی کو دریافت کیا گیا۔ سپرم میں آنے والی جینیاتی تبدیلی کی یہ اولین دریافت تھی، جس سے مردوں میں بانجھ پن کی ایک قسم کی وجہ معلوم ہوئی۔ باقی کے سیمپلز میں پی ایل سی زیٹا میں دیگر طرح کی خامیاں، مثال کے طور پر ناکافی پروٹین اور سپرم میں غلط جگہ پر اس پروٹین کا پایا جانا وغیرہ شامل تھیں۔
آکسفورڈ اور گینٹ یونیورسٹی کے ریسرچرز کے مطابق اس مسئلے یا خامی پر قابو پانا ممکن ہے۔ اس سلسلے میں طبی سائنسدانوں نے چوہوں پر تجربات بھی کئے ہیں۔ ان تجربات میں کارآمد پی ایل سی زیٹا کو بیضے میں مصنوعی طریقے سے داخل یا انجیکٹ کیا گیا، جس کا نتیجہ کامیابی کی صورت میں سامنے آیا۔
اس تجربے کی کامیابی کے باوجود ڈاکڑ پیرینگٹن کا کہنا ہے کہ یہ آزمائش فی الحال صرف تجربہ گاہ تک ہی محدود ہے اور ابھی اس کو فرٹیلیٹی کلینک میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اگر مستقبل قریب میں پی ایل سی زیٹا کو مصنوعی طریقے سے تیار کرنے میں کامیابی حاصل ہو گئی تو یہ ان تمام جوڑوں کے لیے امید کی ایک کرن ہو گی جو آئی وی ایف علاج میں ناکام ہو چکے ہیں ۔
پی ایل سی زیٹا کو مردوں میں بانجھ پن یا اسقاط حمل کی ایک وجہ معلوم ہونے کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ اس پروٹین کو غیر متحرک کرنے کی دوا بھی بہت جلد تیار ہوجائے گی۔