تیرہ اگست کی صبح وزیر اعلی پنجاب مریم نواز نے ایک ٹویٹ کے ذریعے نیویارک کے ٹائمز اسکوائر پر اپنی تصویر کے ساتھ پنجاب کو آئی ٹی صوبہ بنانے کا اشتہار بہت فخر سے شیئر کیا۔ بتایا گیا ہے کہ اس اشتہار کی رقم سرکاری خزانے سے ادا کی گئی لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اس تشہیری مہم پر کتنے پیسے خرچ ہوئے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ جس آئی ٹی صوبہ کا دعوی اس اشتہار میں کیا گیا اس کے راستے میں کثیر رقم لگا کر فائر وال کے ذریعے بندش بھی یہی حکومت کر چکی جس پر ملک کے فری لانسرز اور آئی ٹی سیکٹر چیخ چیخ کر تھک گئے کہ سرکاری خزانے سےخطیر رقم لگا کر ملک کو اور آئی ٹی انڈسٹری کو اتنا بڑا نقصان حکومت صرف اپنے مفاد کے لیے کیوں پہنچا رہی ہے؟
اب ذرا تصویر کے دوسرے رخ کا جائزہ لیجئے۔ عمران خان پر پہلا کیس توشہ خانہ کا بنایا گیا۔ یہ کیس آئین پاکستان کے ارٹیکل 19/ اے (معلومات تک رسائی کا حق) کے تحت بنا۔ یہ 2020 ٔ کی بات ہے، جب ابرار نامی ایک گمنام صحافی نے عمران خان کے انٹرویو کو سن کر پاکستان انفارمیشن کمیشن میں ایک آر ٹی آئی بھیجی۔
یاد رکھیے گا کہ تب برسر اقتدار بھی عمران خان ہی تھے اور اس کمیشن میں تعینات تینوں کمشنرز بھی انہی کے لگائے ہوئے تھے۔ اسی کمیشن نے 2021 ٔ میں یہ فیصلہ دیا کہ 1947 ٔ سے اب تک کا توشہ خانہ کا تمام ریکارڈ پبلک کیا جائے۔ یہ بھی خان ہی کا دور حکومت تھا۔ تو کیا عمران خان اداروں پر اپنا اختیار استعمال نہیں کر سکتے تھے؟ توشہ خانہ کا ریکارڈ صرف 2013 ٔ سے پبلک کیا گیا وہ بھی پی ڈی ایم کے دور میں۔جب کہ اس سے پہلے کا ریکارڈ آج بھی پبلک نہیں کیا گیا۔ شاید احتساب صرف مخالف کا ہی بھلا لگتا ہے۔
معلومات تک رسائی کے اس قانون کو موجودہ حکمرانوں نے صرف اپنی سہولت کے لیے استعمال کیا اور پھر سہولت کاروں پر انعامات کی برسات بھی ہوئی۔ جبکہ دوسری جانب معلومات تک رسائی کے ان کمشنز کو مکمل مفلوج بنانے کے لیے اپنے من پسند لوگوں کو کمشنرز بنا دیا گیا۔ جیسا کہ وہ جج صاحب جنہوں نے فرد جرم لگنے والے روز شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو کلین چٹ دی اور ریٹائرڈ ہو گئے مگر صرف چھ ماہ بعد لاہور کے اس جج کو اسلام آباد میں پاکستان انفارمیشن کمیشن میں کمشنر کی سیٹ عطا کی گئی۔
شاہ کے ان وفاداروں نے وفا کچھ اس طرح نبھائی کہ حالیہ انتخابات کے بعد 22 فروری کو پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سے پوچھا گیا کہ 8 فروری (یعنی عام انتخابات والے دن) کس کے حکم پر موبائل نیٹ ورک بند کیا گیا اور جس میٹنگ میں موبائل نیٹ ورک بند کرنے کا فیصلہ ہوا، اس کے منٹس آف میٹنگ اور موبائل نیٹ ورک بندش کے حوالے سے جو حکم نامہ جاری کیا گیا اس کی کاپی فراہم کی جائے۔ پی ٹی آئی نے معلومات تک رسائی کے تحت دی گئی اس درخواست کے جواب میں لکھا کہ یہ معاملہ وزارت داخلہ سے متعلقہ ہے اس لیے مذکورہ معلومات کے حصول کے لیے وزارت داخلہ سے رابطہ کیا جائے۔
آٹھ مارچ کو یہی سوالنامہ وزرات داخلہ کو بھیج دیا لیکن وزارت داخلہ کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا اور کیس پاکستان انفارمیشن کمیشن تک پہنچا۔ کمیشن نے 10 جولائی کو اس اپیل پر فیصلہ جاری کرتے ہوئے یہ کہا کہ مذکورہ معلومات کو وفاقی وزیر داخلہ نے قومی سلامتی سے متعلقہ معلومات قرار دیتے ہوئے حساس قرار دے دیا ہے۔ جبکہ مانگی گئی معلومات کو معلومات تک رسائی کے قانون سال 2017 کے سیکشن 5 میں واضح طور پر پبلک ریکارڈ قرار دیا گیا ہے۔
پاکستان انفارمیشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں نہ ہی کسی سیکشن کا حوالے دیا ہے نہ ہی مانگی گئی معلومات پر بحث کی گئی ہے اور نہ ہی شکایات دہندہ (یعنی میرا) کوئی جواب لیا گیا ہے۔ یک طرفہ فیصلے کے ساتھ وزیر داخلہ کی جانب سے معلومات کو حساس قرار دینے کا کوئی نوٹیفکیشن بھی منسلک یا شیئر نہیں کیا گیا۔ فیصلے کے خلاف میں نے 23 جولائی کو پاکستان انفارمیشن کمیشن کو تحریری طور پر اپنے اعتراضات جمع کرائے اور انہیں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے یا میرے اعتراضات کی روشنی میں تفصیلی فیصلہ جاری کرنے کی استدعا کی لیکن تاحال کمیشن نے نہ ہی کوئی تفصیلی فیصلہ جاری کیا اور نہ ہی میرے اعتراضات کا کوئی جواب دیا۔
معلومات تک رسائی کے قانون سال 2017 کے سیکشن 7 سب سیکشن ایف کے تحت وفاقی وزیر کو کسی بھی معلومات کو مستثنی قرار دینے کے لیے وجوہات بیان کرنا ہوں گی کہ کیسے یہ معلومات مفاد عامہ کی بجائے ''ملک کی سلامتی‘‘ کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں۔ مذکورہ سیکشن سے یہ واضح ہوتا کہ محض ایک نوٹفیکیشن جاری کرکے معلومات کو مستثنی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یا یوں کہیے کہ کمیشن خود اس قانون کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ یا دوسری جانب شاہوں کی جانب سے کیے گئے انعامات کا قرض اتاررہا ہے۔ یہ صرف ایک کیس ہے۔ کمیشن میں ایسی لاتعداد فائلیں اب صرف ڈھول مٹی میں اٹی پڑی ہیں کیونکہ یہاں طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں حکمران ہیں۔
توشہ خانہ کی خصوصی آڈٹ رپورٹ کے مطابق پرویزمشرف، پیپلز پارٹی اور ن لیگ ادوار میں قوانین کی خلاف ورزی ہوئی،2011ء سے 2018ء کے دوران طریقہ کار تبدیل کر کے قواعد کو ختم کیا گیا، وزرائے اعظم کو قوانین میں نرمی کے ذریعے دی گئی تمام رعائتیں غیرقانونی قرار دی گئی ہیں۔
اس سب کے باوجود عوامی پیسوں سے فائر وال لگا کر فری لانسنگ اور آئی ٹی انڈسٹری کو بھی برباد کیا جاتا رہے گا اور انہیں عوامی پیسوں سے اپنے چہرے کے ساتھ سب اچھا کے اشتہارات کے پوسٹر بھی لگائے جاتے رہیں گے۔ کیونکہ یہ تو طے ہے حکومت ایلیکٹیڈ ہو تب ہی جمہوریت مضبوط ہوتی ہے۔ اور عوامی مفاد کے منصوبوں پر عمل درآمد ہوتا نظر آتا ہے ورنہ تمام زور صرف خود کی تشہیر اور کرپشن چھپانے پر لگتا ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔