مزدوروں کا عالمی دن: پندرہ پاکستانی، پندرہ کہانیاں
پاکستان میں کروڑوں انسان ایسے ہیں، جنہیں پیٹ کی بھوک کے خلاف ہر روز ایک جنگ لڑنا پڑتی ہے۔ محرومی کی زندگی گزارنے والے یہ وہ انسان ہیں، جنہیں اس شکایت کا موقع بھی کم ہی ملتا ہے: ’ہیں تلخ بہت بندہٴ مزدور کے اوقات‘۔
تیری دنیا کے یہ بندے کدھر جائیں؟
دھوپ میں سڑک پر اس تین پہیوں والی ریڑھی کو کھینچنے والے غلام مسیح نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یوم مئی منانے کا فائدہ؟ ہم غریبوں کے مسائل تو حل نہیں ہوتے۔ نہ محرومی کم ہوئی اور نہ زندگی آسان۔ میں پینتیس برسوں سے یہی کرتا آ رہا ہوں۔ اب میرے بچے بھی یہی کام کرتے ہیں۔ بس وقت کا پہیہ گھومتا جاتا ہے۔ ہم مزوری نہ کریں، تو بھوکے مر جائیں گے۔‘‘
پسینے میں گم ہو جانے والے آنسو
مظفر گڑھ کا ساجد حسن آٹھ برسوں سے مال بردار گاڑیوں پر سامان رکھتا اور اتارتا ہے۔ پرائمری پاس ساجد کو والد نے اسکول سے اٹھا کر کام پر لگا دیا:’’میرے والد کے تین شادیوں سے بائیس بچے پیدا ہوئے۔ اب میرا والد فوت ہو چکا ہے اور گھر مسائل سے بھرا ہوا ہے۔ مزدور کی زندگی کتے سے بھی بدتر ہے۔ مالک کام کے پیسے یوں دیتا ہے، جیسے احسان کر رہا ہو۔‘‘ یہ بتاتے ہوئے ساجد کے آنسو اس کے چہرے پر پسینے میں گم ہو گئے۔
کام نہ ملنے کا مطلب فاقہ
فیاض علی آٹھویں پاس ہے، غربت نے اسکول چھڑوایا اور اب نتیجہ چار پانچ سو روز کی دیہاڑی ہے۔ اس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شدید گرمی میں مشقت سے کبھی کبھی طبیعت خراب بھی ہو جاتی ہے:’’جس شام پکانے کو کچھ گھر نہ لے جا سکوں، اس شام ہم فاقہ کرتے ہیں۔ دوسروں کے بچے تو اچھے اسکولوں میں جاتے ہیں اور ہمارے جیسے سڑکوں پر زندگی گزار دیتے ہیں۔ اس نا انصافی کا ذمے دار میں خود تو نہیں ہوں۔‘‘
ہاتھوں کے چھالے اور ورم
پروین اختر پچھلے تیس سال سے مختلف لوگوں کے گھروں میں کام کر کے روزانہ دو تین سو روپے کما لیتی ہے اور کبھی ساتھ میں کھانا بھی مل جاتا ہے۔ پروین نے بتایا کہ اس کا شوہر نشے کا عادی ہے اور آئے دن مار پیٹ کرتا ہے۔ اس کی چار بیٹیوں کی شادی ہو چکی ہے، دو ابھی باقی ہیں۔ پروین نے اپنے ہاتھوں کے چھالے دکھاتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اس ملک میں غریب کو یہ پوچھنے والا کوئی نہیں کہ وہ زندہ ہے تو کیسے؟‘‘
دوسرے شہر میں مزدوری
محمد جمیل ضلع مظفر گڑھ سے راولپنڈی اسلام آباد اس لیے آیا کہ اپنے قصبے میں اسے مزدوری بھی نہیں ملتی تھی۔ ہر موسم میں مزدوری کا کام کرنے والا جمیل آٹھ تا دس ہزار روپے ماہانہ تک کما لیتا ہے۔ اس کے تمام آٹھ بہن بھائی شادی شدہ ہیں اور اس کے اپنے بھی دو بچے ہیں۔ اس کا کہنا ہے، ’’افسوس اس بات کا ہے کہ والدین غریب تھے اور میں کم عمری میں محنت مزدوری پر مجبور ہونے کے باعث تعلیم حاصل نہ کر سکا۔‘‘
گھروں میں مالی کا کام
اللہ نور نامی یہ شہری چالیس سال پہلے بنوں سے مزدوری کے لیے اسلام آباد آیا تھا۔ اسے ایسا اپنے والد کے انتقال کے باعث کرنا پڑا۔ پشاور موڑ کے قریب پانچ ہزار روپے ماہانہ کرائے پر رہنے والا اللہ نور عام لوگوں کے گھروں میں باغیچوں اور کیاریوں کی دیکھ بھال کر کے ہر ماہ دس بارہ ہزار روپے کما لیتا ہے، جس کا ایک حصہ اسے ہر ماہ اپنے آبائی گاؤں میں اپنے گھر والوں کو بھیجنا ہوتا ہے۔
بوٹ پالش سے بچوں کی تعلیم
پنڈی بھٹیاں کےعاشق علی کے باپ دادا بھی موچی تھے اور اب راولپنڈی میں مقیم عاشق اسلام آباد میں ایک درخت کے نیچے پوٹ پالش اور جوتے مرمت کرتا ہے:’’میں روزانہ تین چار سو روپے کما لیتا ہوں۔ ہے۔ اپنے پانچوں بچوں کو کسی نہ کسی طرح تعلیم بھی دلوا رہا ہوں تاکہ وہ پڑھ لکھ کر کوئی اچھی نوکری کر سکیں۔ مہنگائی بہت زیادہ ہے۔ میری بیوی بھی لوگوں کے گھروں میں جا کر کام نہ کرے تو ہمارا گزارہ ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘
کوڑے میں سے کاغذ، گتے کے ذریعے رزق
گل بی بی سارا دن پرانا کاغذ اور کوڑے میں سے ایسی چیزیں ڈھونڈتی ہے، جنہیں بیچ کر وہ اپنی زندگی کی گاڑی چلا سکے۔ اس کی شادی بہت چھوٹی عمر میں ہو گئی تھی۔ اس کے نو بچے ہیں اور بیمار شوہر بوڑھا ہو چکا ہے۔ وہ روز چھ سات سو روپے تک کما لیتی ہے:’’میری ساری عمر سڑکوں پر کوڑا چنتے اور مزدوری کرتے گزری ہے۔ اپنے بچوں کو پڑھانا لکھانا ہمارے جیسوں کے بس کی بات نہیں۔ یہ کام صرف پیسوں والے کر سکتے ہیں۔‘‘
نوکری نہ ملی تو سٹال لگا لیا
ایف اے پاس نوجوان فیاض حسین آٹھ ہزار روپے ماہانہ کرائے پر اسلام آباد کے ایک فلیٹ میں رہتا ہے۔ مسلسل بے روزگاری کے بعد اس نے اپنے فلیٹ ہی کے سامنے ایک دیوار کے ساتھ ایک سٹال لگا لیا۔ ’’میں روزانہ ٹافیاں، گولیاں، بسکٹ بیچ کر تین سے پانچ سو روپے تک کما لیتا ہوں لیکن مہنگائی اتنی ہے کہ یہ کمائی دال روٹی کے لیے بھی مشکل ہی سے کافی ہوتی ہے۔ میں ابھی تک اپنے گھر والوں کی کوئی مدد نہیں کر پا رہا۔‘‘
عمر تیرہ سال، کام کا تجربہ چار سال
چارسدہ سے تعلق رکھنے والے تیرہ سالہ اعجازالحق پچھلے چار سال سے ایک پرائیویٹ اسکول اور چند گھروں میں صفائی کا کام کرتا ہے۔ اس کے تین بہن بھائی ہیں، جو سب اس سے چھوٹے ہیں۔ اعجاز کو خود بھی پڑھائی کا بڑا شوق ہے اور اسے یونیفارم پہن کر اسکول جاتے بچے اچھے لگتے ہیں۔ ’’میرے والدین کہتے ہیں کہ تم کام نہیں چھوڑ سکتے۔ مزدوری نہیں کریں گے تو کھائیں گے کہاں سے؟‘‘
سڑک کے کنارے حجام
اسلام آباد میں ایک سڑک کے کنارے اور ایک درخت کے نیچے حجام کے طور پر اپنی چلتی پھرتی دکان چلانے والے ناصر کا تعلق سرگودھا سے ہے۔ اس کا پورا خاندان راولپنڈی کے علاقے راجہ بازار میں رہتا ہے۔ ناصر نے بتایا کہ وہ روزانہ پانچ چھ سو روپے تک کما لیتا ہے۔ ’’میرا خواب ہے کہ میری اپنی ہیئر ڈریسر کی ایک بڑی سی دکان ہو۔ اس کے لیے لاکھوں روپے ہونے چاہیئں۔ غریبوں کے تو خواب بھی ادھورے ہی رہ جاتے پیں۔‘‘
مڈل پاس ویٹر
مانسہرہ سے پاکستانی دارالحکومت میں آنے والا چوبیس سالہ اجمل پچھلے آٹھ سال سے ایک ریستوران پر ویٹر کا کام کرتا ہے۔ اس کی ماہانہ تنخواہ چودہ ہزار روپے ہے اور آجر کی طرف سے رہائش اور کھانا پینا بھی مفت ہے۔ وہ اپنے ساری کمائی گاؤں میں اپنے گھر والوں کو بھیج دیتا ہے۔ ’’مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے کہ مجھے اپنی پڑھائی نامکمل ہی چھوڑ دینا پڑی۔‘‘
آٹھ بچوں کی بیوہ ماں
پشاور سے آنے والی زریں گل آٹھ بچوں کی ماں ہے اور بیوہ ہے۔ وہ سات سال سے اسلام آباد کے علاقے جی الیون میں رہتی ہے۔ اس کے تین بیٹے ہیں اور پانچ بیٹیاں۔ بیٹے بھی مزدوری کرتے ہیں۔ کوئی کوڑا کرکٹ اٹھاتا ہے، کوئی ردی بیچتا ہے۔ زریں گل نے شکایت کرتے ہوئے کہا، ’’سارے دن کی محنت کے بعد بھی گزارہ نہیں ہوتا۔ لوگ آتے ہیں، تصویریں بناتے ہیں۔ کوئی ہماری مجبوریاں نہیں سمجھتا۔ غربت تو تماشہ ہے امیروں کے لیے۔‘‘
باجوڑ کا قلفی فروش
احمد خان کا تعلق باجوڑ کے قبائلی علاقے سے ہے۔ وہ اسلام آباد میں اپنے ایک رشتے دار کے پاس رہتا ہے۔ وہ چھ سال سے قلفیاں بیچ رہا ہے۔ پرائمری پاس احمد خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارے علاقے میں غربت بہت زیادہ ہے اور کام کاج کوئی نہیں۔ اسی لیے ہم محنت مزدوری کے لیے دوسرے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ میرے کچھ دوست اسلام آباد آ رہے تھے تو میں بھی ساتھ آ گیا۔ اب میں باقاعدگی سے پیسے گھر بھیجتا ہوں۔‘‘
کام کیا لیکن تنخواہ نہیں ملی
اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے سی ڈی اے میں ملازم زلیخا مسیح نے، جو کڑی دھوپ میں کچھ دیر سستانے کے لیے ایک درخت کے نیچے بیٹھی تھی، بتایا کہ اس کی تنخواہ بارہ ہزار ہے، جو رو رو کر ملتی ہے:’’پچھلے دو ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں۔ پہلے میں گھروں میں کام کر کے بھی کچھ پیسے کما لیتی تھی۔ اب بیمار رہتی ہوں تو مجھ سے زیادہ کام بھی نہیں ہوتا۔ مہنگائی اتنی ہے کہ سمجھ نہیں آتا کہ کھائیں کیا اور زندہ کیسے رہیں۔‘‘