مزید پابندیاں لگیں تو کوئی مذاکرات نہیں: ایران
8 جون 2010روسی وزیر اعظم ولادمیر پوٹن نے ترک شہر استنبول میں کہا کہ عالمی طاقتیں ایران کے خلاف پابندیاں مزید سخت کرنے پر تقریباً متفق ہوگئی ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران کے خلاف چوتھے مرحلے کی پابندیوں پر ووٹنگ ہو رہی ہے۔ ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے نئی ممکنہ پابندیوں کی قرارداد پر ووٹنگ کی شدید مخالفت کی ہے۔ احمدی نژاد نے ترکی منعقدہ سلامتی سمٹ میں کہا کہ اگر مزید پابندیاں عائد کی گئیں تو تہران حکومت مذاکرات کی میز پر نہیں آئے گی۔
اُنہوں نے کہا کہ پابندیاں عائد ہوئیں تو ترکی اور برازیل کی ثالثی میں جوہری ایندھن کے تبادلے جیسی ڈیل پھر کبھی دہرائی نہیں جائے گی۔ ایرانی صدر نے روس پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ تہران کے دشمنوں کا ساتھ نہ دے۔’’اگر ایران پر مزید پابندیاں لگائی گئیں تو شکست امریکہ کی ہی ہوگی۔‘‘
دوسری جانب، ماضی میں تہران پر پابندیوں کی مخالفت کرنے والا ملک روس بھی ایران کا ساتھ چھوڑتا نظر آ رہا ہے۔ ترکی میں جاری یوریشیا سلامتی سمٹ کے موقع پر روسی وزیر اعظم ولادمیر پوٹن نے واضح طور پر کہا کہ عالمی طاقتوں نے ایران کے خلاف مزید پابندیوں سے متعلق قرار داد منظور کروانے کا ذہن بنا لیا ہے۔ پوٹن نے ان خیالات کا اظہار منگل کو استنبول میں ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ انہوں نے تاہم یہ بھی کہا کہ نئی پابندیاں زیادہ سخت نہیں ہونی چاہییں۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی ابھی حال ہی میں واضح طور پر یہ کہا تھا کہ اَقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اب بہت جلد ایران کے خلاف مزید سخت پابندیوں کے حوالے سے قرارداد منظور کرے گی۔ ’’اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین اور جرمنی نے ایرانی حکومت کو کئی مرتبہ سمجھوتوں اور معاہدوں کی پیشکش کی، لیکن ایران اپنے پرانے ہی موقف پر قائم ہے۔‘‘
امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی ایران پر پابندیاں سخت کرنے کے حق میں ہیں جبکہ اس حوالے سے روس اور چین کا موقف اب تک قدرے لچک دار رہا تھا۔ روس کے ایران کے ساتھ تجارتی مفادات بھی وابستہ ہیں۔
سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین، برطانیہ، فرانس،چین، روس اور امریکہ ایران پر نئی پابندیاں لگانے پر تقریباً تیار نظر آ رہے ہیں لیکن کونسل کے بہت سے غیر مستقل رکن ممالک پابندیوں کے حق میں نہیں ہیں۔ ان ملکوں میں ترکی، برازیل اور لبنان شامل ہیں، لیکن ان ممالک کو ویٹو کا حق حاصل نہیں ہے۔
اُدھر ترکی کے ایک سینیئر سفارت کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پابندیوں کے باوجود انقرہ حکومت ایران کو مذاکرات کی میز نہ چھوڑنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
دریں اثناء ایران سخت ترین بین الاقوامی دباوٴ کے باوجود یورینیئم کی افزودگی کا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایران کا دیرینہ موقف ہے کہ اس کا نیوکلیئر پروگرام پرامن مقاصد کے لئے ہے جبکہ عالمی طاقتوں کو یہ خدشات لاحق ہیں کہ تہران حکومت ایٹم بم بنانے کی تیاری کر رہی ہے۔
رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی/خبر رساں ادارے
ادارت: کشور مصطفیٰ