مزید پندرہ سو مہاجرین کو بچا لیا گیا
30 مارچ 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ یورپی یونین کی بحریہ نے مختلف کارروائیاں کرتے ہوئے سمندر میں پھنسے پندرہ سو انسٹھ افراد کو بچایا۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق بحیرہ روم کے راستے لیبیا سے اٹلی پہنچنے کی کوشش کرنے والے ان مہاجرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔
اطالوی حکام کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اس کے ساحلی محافظوں نے 774 افراد کو بچایا، جن میں ایک سو پچیس خواتین اور پانچ بچے بھی شامل ہیں۔ ایک اور کارروائی میں تین اطالوی کشتیوں نے ریسکیو آپریشن کے دوران چھ سو ساٹھ مہاجرین کی جان بچائی۔
دوسری طرف جرمن فوجی بحری جہاز نے بھی آبنائے صقلیہ میں پھنسے ایک سو پانچ مہاجرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یوں ویک اینڈ کے دوران یورپی یونین کی بحریہ کی طرف سے کی گئی مختلف کارروائیوں میں تقریبا سولہ سو مہاجرین کو بچایا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق رواں برس کے آغاز کے بعد سے کم ازکم سترہ ہزار پانچ سو مہاجرین اٹلی پہنچ چکے ہیں۔ ایسے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ موسم متعدل ہونے کی وجہ سے سمندری راستوں کے ذریعے شمالی افریقہ سے یورپ کا رخ کرنے والے افراد کی تعدا میں اضافہ ہو جائے گا۔
گزشتہ برس کے دوران 1.2 ملین سے زائد مہاجرین یورپ داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ان مہاجرین کا تعلق ایسے شورش زدہ علاقوں سے تھا، جو اس وقت تنازعات کی زد میں ہیں۔ مشرقی وسطیٰ کے علاوہ افریقہ اور ایشیائی ممالک سے یورپ پہنچنے والے ان مہاجرین کی وجہ سے یورپ کو بھی مہاجرین کے بحران کا سامنا ہے۔
حکام نے البتہ بتایا ہے کہ ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والی ڈیل کے نتیجے میں بحیرہ ایجیئن سے یونان پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی پیدا ہو چکی ہے۔ مگر یونان میں پھنسے مہاجرین کی وجہ سے نہ صرف ایتھنز حکومت بلکہ اس کی ہمسایہ ممالک کو بھی مسائل کا سامنا ہے۔
بلقان کی ریاستوں نے سرحدی راستوں کو بند کر دیا ہے تاکہ یونان سے دیگر ممالک میں جانے کی کوشش کرنے والے مہاجرین کو روکا جا سکے۔ دریں اثناء مقدونیا اور یونان کی سرحد پر پھنسے مہاجرین اور یونانی سکیورٹی گارڈز کے مابین تازہ جھڑپوں کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق کم ازکم بارہ ہزار مہاجرین ابھی بھی یونان اور مقدونیا کی سرحد پر اڈومینی کے مقام پر قائم ایک عارضی مہاجر کیمپ میں موجود ہیں۔ اس کیمپ کی ابتر صورتحال کی وجہ سے مہاجرین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے لیکن وہ اس امید میں ہیں کہ شاید راستے کھل جائیں گے اور وہ جلد ہی وسطی اور شمالی یورپی ممالک جا سکیں گے۔