مزید پینتالیس پاکستانی تارکین وطن ملک بدر
18 اپریل 2016جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی یونانی دارالحکومت ایتھنز سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق غیر قانونی طور پر ترکی سے یونان پہنچنے والے 150 غیر ملکیوں کو آج واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔
یورپی کمیشن نے سیاسی پناہ کے نئے قوانین تجویز کر دیے
’پاکستانی مہاجرین کو وطن واپس جانے پڑے گا‘
رپورٹوں کے آج اٹھارہ اپریل بروز پیر پینتالیس پاکستانی شہریوں کو ترکی واپس بھیجنے کی غرض سے یونانی جزیرے لیسبوس کے شہر میتےلینی لایا گیا، جہاں سے انہیں ایک کشتی میں سوار کرا کے ترکی کے ساحلی شہر دیکیلی بھیج دیا گیا۔
اس دوران انسانی حقوق کے لیے سرگرم اور مہاجر دوست تنظیموں کی جانب سے جبری ملک بدریوں کے خلاف احتجاج بھی کیا گیا۔ ڈی پی اے نے یونانی ریڈیو ایتھینا 984 کے حوالے سے لکھا ہے کہ انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں نے ملک بدریوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ملک بدری کے لیے استعمال ہونے والی کشتیوں کو روکنے کی کوشش بھی کی۔
برسلز اور انقرہ کے مابین پناہ گزینوں کی واپسی کے معاہدے کو اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی کئی تنظیموں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ترکی اور یورپی یونین کے مابین پناہ گزینوں کی واپسی کا یہ متنازعہ معاہدہ گزشتہ مہینے طے پایا تھا۔ معاہدے کے مطابق بیس مارچ کے بعد غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ ترکی واپس بھیجے گئے پناہ گزینوں کی اکثریت کا تعلق پاکستان سے ہے۔
جرمن جریدے ’ڈیئر اشپیگل‘ کے مطابق اس معاہدے کے بعد اب تک جن 326 تارکین وطن کو واپس ترکی بھیجا جا چکا ہے ان میں سے 241 کا تعلق پاکستان سے جب کہ صرف 42 کا تعلق افغانستان سے تھا۔
معاہدے کے مطابق یونان سے واپس ترکی بھیجے گئے ہر شامی مہاجر کے بدلے ترک کیمپوں میں مقیم کسی ایک شامی باشندے کو یورپ میں قانونی طور پر پناہ دی جائے گی۔ اشپیگل کے مطابق بیس مارچ سے بارہ اپریل کے درمیان 79 شامی شہریوں کو جرمنی سمیت مختلف یورپی ممالک منتقل کیا جا چکا ہے۔
اس دوران ترکی سے یونانی جزیروں تک پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد تقریباﹰ ساڑھے چھ ہزار کے قریب رہی۔