1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسئلہ حساسیت کا ہے!

17 نومبر 2020

کچھ باتیں ہمارے لیے حساس نہیں ہوتیں لیکن کسی دوسرے کے لیے وہ انتہائی سنگین ہو سکتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں معذوری، رنگ یا جسمانی ساخت پر مذاق اڑانا معمول کی بات ہے لیکن کیا کبھی ہم نے یہ سوچا کہ اس کے اثرات کیا ہوتے ہیں؟

https://p.dw.com/p/3lOlb
DW Urdu Blogerin Tahira Syed (Privat)
تصویر: Privat

زندگی جینے کی مصروفیت  نے ہمیں اپنے ارد گرد سے اس قدر غافل کر دیا ہے کہ بہت سے پیارے لوگ بھی آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کے مصداق ہوجاتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک دیرینہ دوست سے سر راہ ملاقات ہوئی تو اتنے برسوں بعد ایک دوسرے کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اور آنے والے اتوار اس نے مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دے ڈالی۔

 میں بھی اس کی تین پیاری پیاری بیٹیوں سے ملنے کو بےچین تھی۔ دوست کے گھر پہنچنے پر اس کی دو چھوٹی بیٹیوں نے چہکتے، کھلکھلاتے ہوئے میرا استقبال کیا مگر بڑی بیٹی نظر نہ آئی۔ میرے استفسار پر دادی بولیں ارے وہ ہماری ’کلو‘ مہمانوں کے سامنے آنے سے بہت کتراتی ہے۔

میرے اصرار کرنے پر سات سالہ دبلی پتلی، سانولی سی بچی ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی اور خاموشی سے کونے میں بیٹھ گئی۔ جب کہ چھوٹی والی دونوں ستارہ سی چمکتی بولتی گڑیاں مسلسل ماحول کی رونق بڑھاتی رہیں۔

یہ بھی پڑھیے: خالق کی تخلیق میں ادھورا پن تلاش مت کیجیے

 دادی اور ماں بھی انہی دونوں کی جانب زیادہ ملتفت نظر آتی تھیں۔ ان دونوں بچیوں کی ویڈیوز ان دونوں کی تصویریں لوگوں کا سراہا جانا موضوع گفتگو رہا۔ اس دوران بڑی والی بیٹی اس ماحول کا حصہ ہوتے ہوئے بھی لاتعلقی کا اظہار کرتی رہی۔ اور پھر کچھ دیر میں خاموشی سے اٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔

اپنی دوست سے میں نے بچی کے اس طرح کے رویے پر بات کی تو اندازہ ہوا کہ بچی اپنی رنگت کی وجہ سے ہر جگہ نشانہ بنتی ہے، خاص طور پر دو انتہائی خوش شکل اور گوری بہنوں کی موجودگی میں ہر کوئی حیرت سے یہ پوچھے بنا نہیں رہتا کہ کیا یہ بھی تمہاری ہی بیٹی ہے؟  اور ان کی والدہ محترمہ نے اس کا حل یہ سوچا رکھا تھا کہ بڑے ہونے پر اس کو رنگت گوری کرنے کے انجکشن لگوانے ہیں۔ مجھے اس بات کا دکھ ہوا کے اتنی چھوٹی سی عمر میں ایک بچی اپنی رنگت کے حوالے سے اس قدر حساس کیسے ہوگئی؟

 اسے یہ احساس دلانے والے ہم لوگ ہی ہیں۔ ماضی میں سانولی رنگت شاید ایک اسکن ٹون سے زیادہ کچھ نہ تھی۔ مگر آج جلد کی رنگت ہی سب کچھ ہے۔ آپ سب بھی اس بات سے یقینا متفق ہوں گے کہ جس طرح گورا ہونا کوئی کمال بات نہیں اسی طرح سانولی رنگت میں بھی کوئی برائی نہیں۔

لیکن سفید رنگت کی برتری ہمارے معاشرے میں روز بروز اپنی جڑیں گہری کر رہی ہے اور اس میں گورا کرنے والی کریموں کے اشتہاروں کا بھی بہت عمل دخل ہے۔ اشتہاروں میں گہری رنگت والی خواتین یا مردوں کو بھی اعتماد کی کمی کا شکار ہی دکھایا جاتا ہے۔ اور یہ بھی باور کرایا جاتا ہے کہ زندگی میں اگر کامیاب ہونا ہے یا  اگر اچھا جیون ساتھی پانا ہے تو بھی رنگت کا صاف ہونا ہی اس کی ضمانت ہے۔

یہ بھی پڑھیے:بلاگ: فیشن کی دوڑ

چلیں مان لیا کہ انہیں تو اپنا مال بیچنا ہے وہ تو نت نئے انداز اور طریقے مارکیٹ میں لے کر آئیں گے ہی مگر ان معاشرتی رویوں کا کیا کیا جائے، جہاں ایک ماں بھی اپنی بچی کی صحت کو داؤ پر لگا کر اس بات کے لیے تیار نظر آتی ہے کہ اسے گورا کرنے والے انجکشن کی ضرورت ہے۔

 آج اس خوبصورت نظر آنے کی دوڑ میں صرف اداکارائیں اور ماڈل گرلز ہی شامل نہیں ہمارے معاشرے کی ہر لڑکی اس دوڑ کا حصہ نظر آتی ہے۔ بصورت دیگر ان کو ملنے والے طعنے اور ان کو ملنے والے مشورے ان کی زندگی کو مزید اجیرن کیے رکھتے ہیں۔ مثلا کسی مخصوص رنگ کے پہننے پر یہ سننے کو ملے گا کہ ارے بھئی کلر کا انتخاب کرتے وقت اپنی رنگت تو دیکھ لیا کرو۔ یا پھر ۔۔۔۔ اتنا شوخ رنگ ۔۔۔۔ اب تم یہ پہنوگی اپنا مذاق بنواوُگی کیا۔۔!

یہ جملے بولنے والے عموما ہمارے اپنے گھر والے اور خیر خواہ ہی ہوتے ہیں۔ اس صورتحال سے ہمارے بچوں اور بچیوں پر نفسیاتی دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔

بچوں کی وہ عمر جس میں ان کی تعلیمی سرگرمیوں اور پر اعتماد شخصیت پر ان کی اور ہماری توجہ مرکوز ہو اُس عمر میں بچوں کو ان کے ظاہری خدو خال اور رنگت کے حوالے سے تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

فی زمانہ ہمارے بچوں اور بچیوں کو درپیش چیلنجز میں ایک اضافی چیلنج خوبصورتی کے بڑھتے ہوئے معیارات بھی ہیں۔ ماضی میں زیادہ وزن رکھنے والے لوگ فخریہ کہتے نظر آتے تھے کہ ۔۔۔ ارے بھئی ہمارا تعلق کھاتے پیتے گھرانےسے ہے ۔۔۔ مگر آج چار لوگوں میں بیٹھ کر موٹے لوگوں کو جس طرح مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے، وہ یقینا اُن کے لیے بہت دل آزاری کا سبب بنتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: مجھے علیحدہ کمرے میں کیوں سونا ہے؟

 خصوصا سوشل میڈیا پر موٹی خواتین کی تصویریں بطور مذاح اپ لوڈ کرنا ایک معمول کی بات ہے۔ یہاں تک کہ اپنےحلقہ احباب کی زیادہ وزن والی خواتین کے نمبر تک فون میں ان کے نام میں 'موٹی‘ کی اضافت کے ساتھ محفوظ کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح کسی بھی گنجے شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنے گنج پن سے نجات حاصل کرے ورنہ روزانہ کی بنیاد پر ملنے والے مشورے اور طعنے اُسے جینے نہیں دیں گے۔

اس ترقی پذیر معاشرے میں ہمارے بچے اور بچیاں پہلے ہی نہ جانے کس کس ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ والدین پر ان کی تربیت کے حوالے سے ذمہ داری کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ تعلیم کیا دلانی ہے؟ شعور کیسے پیدا ہوگا؟ قوت فیصلہ بھی ہونا چاہیے۔ کوئی ہنر آنا بھی ضروری ہے۔ چار پیسے کمانے کے گُر کیسے بتائے جائیں؟ اور ان سب چیلنجز کے ساتھ ایک اور اضافی سوالیہ نشان کہ بچے ظاہری خوبصورتی کے معیارات پر پورا  اترتے ہیں یا نہیں؟ تمہارا تو قد چھوٹا ہے، موٹی ہو یا تمہاری رنگت گہری ہے اچھا رشتہ کیسے ملے گا ؟

 ایسے تمام سوالات ایک ماں کے رویے میں بھی یہ تبدیلی لاتے ہیں کہ وہ اپنی ہی اولاد کے درمیان تفریق کرنا شروع ہوجاتی ہے۔ اس سلسلے میں آئے دن نت نئے طریقے کرش ڈائٹ، کیٹو ڈائٹ، کاسمیٹک سرجری، اور بیوٹی پارلرز کے خوبصورت بنانے کا جھانسہ دیتے اشتہارات ہمارے کمائی کا ایک بڑا حصہ لے اڑتے ہیں۔ ایک نادان ماں کا یہ دل دہلانے والا واقعہ بھی سننے کو ملا کہ اپنی تین ماہ کی نومولود کو ویکس کرانے پارلر پہنچ گئیں۔ ویکس کی تکلیف اکثر بڑی خواتین کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے لیکن کیا کیجیے اس ماں کا جس کو بچی کی خوبصورتی کی زیادہ فکر تھی۔

والدین کو اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگی کہ بچوں کی پرورش ان کی ظاہری خوبصورتی کو مد نظر رکھ کر نہیں بلکہ ان کو ایک پرُاعتماد شخصیت کا مالک بنانے پر محنت کریں۔ انہیں شعور، آگہی، قوت فیصلہ اور تعلیم دیں۔ خوبصورتی ظاہر کا نہیں بلکہ خوبصورت زندگی کا نام ہے۔ معاشرے کے تمام باشعور افراد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے ارد گرد موجود لوگوں پر اس طرح کے طعنے اور اس طرح کے نام دینے سے نہ صرف خود گریز کریں بلکہ دوسروں کو بھی اس بات کا احساس دلائیں کہ یہ عمل بدتہذیبی کہلاتا ہے۔

 ہمارے ایسے رویے اور القابات اگر کسی کو اس کی زندگی میں آگے بڑھنے سے روک دیں تو یہ کسی قتل سے کم نہیں۔ ہمارا ذوق مزاح کیا اس حد تک آلودہ ہو چکا کہ کسی کا موٹا ہونا یا کالا ہونا ہمارے لیے مذاق کی بات ہے۔کیا تعلیم، تہذیب و تمدن ہمارے لیے اپنے معنی کھو چکی ہے؟ کیا ہی اچھا ہو کے ہم آدمی سے انسان ہو سکیں، آدمی جو ایک مادی وجود ہے جبکہ انسان ایک اخلاقی وجود۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں