1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسئلہ کشمیر: پاکستان، بھارت اختلافات ختم کریں، چینی مطالبہ

مقبول ملک
28 ستمبر 2016

چین نے پاکستان اور بھارت سے دو ہمسایہ لیکن حریف ایٹمی طاقتوں کے طور پر مطالبہ کیا ہے کہ انہیں کشمیر کے منقسم اور متنازعہ خطے سے متعلق اپنے عشروں پرانے باہمی اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے ختم کرنا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/2Qhyq
Indische Soldaten im Grenzgebiet zwischen Pakistan und Indien
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Channi Anand

چینی دارالحکومت سے بدھ اٹھائیس ستمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق بیجنگ حکومت نے اسلام آباد اور نئی دہلی سے یہ مطالبہ ایسے وقت پر کیا ہے جب ہمالیہ کے متنازعہ خطے کشمیر کے بھارت کے زیر انتظام حصے میں ایک حالیہ خونریز حملے میں 18 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سے پاکستان اور بھارت کے مابین شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔

بھارت کی طرف سے پاکستان پر طویل عرصے سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اسلام آباد نہ صرف کشمیر کے بھارت کے زیر انتظام حصے میں سرگرم عسکریت پسندوں کی حمایت کرتا ہے بلکہ وہ بھارت کے دیگر علاقوں میں عسکریت پسندانہ کارروائیاں کرنے والے جنگجوؤں کو بھی وہاں بھیجتا ہے۔

پاکستان کی طرف سے ان بھارتی الزامات کی تردید کرتے ہوئے ہمیشہ سے یہ کہا جاتا ہے کہ وہ کشمیر کے بھارت کے زیر انتظام حصے میں کشمیریوں کی جدوجہد کی صرف اخلاقی طور پر تائید کرتا ہے۔

چینی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ کے مطابق چین کے نائب وزیر خارجہ نے کشمیر کے بارے میں پاکستان کے چین میں موجود خصوصی مندوبین سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’چین امید کرتا ہے کہ پاکستان اور بھارت باہمی مکالمت کے تمام راستوں کو بروئے کار لائیں گے، اپنے اختلافات کو ختم کرنے کی مناسب کوششیں کریں گے، دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنائیں گے اور مل کر علاقے میں امن و استحکام کا دفاع کریں گے۔‘‘

Indien Unabhängigkeitstag in Neu-Delhi
بھارتی وزیر اعظم مودی نے نومبر میں سارک سمٹ کے لیے اسلام آباد نہ جانے کا فیصلہ کیاتصویر: picture-alliance/dpa/EPA/H. Tyagi

چینی نائب وزیر خارجہ لیُو ژَین مِن نے پاکستانی مندوبین کو یہ بھی بتایا کہ بیجنگ حکومت مسئلہ کشمیر سے متعلق پاکستان کے موقف کو بڑی اہمیت کی نظر سے دیکھتی ہے۔

پاکستان اور بھارت کے مابین موجودہ کشیدگی کل منگل ستائیس ستمبر کے روز اس وقت مزید بڑھ گئی تھی، جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جنوبی ایشیائی علاقائی تنظیم برائے تعاون یا سارک کے ایک سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے نومبر میں اسلام آباد نہ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔

دوسری طرف پاکستانی حکومت نے بھی خبردار کر دیا تھا کہ اگر بھارت نے دونوں ہمسایہ ملکوں کے مابین دریائی پانی کے ایک معاہدے پر عمل درآمد منسوخ کر دیا، تو اسلام آباد اسے ایک ’جنگی اقدام‘ تصور کرے گا۔