مستقبل قریب میں فلسطینیوں کے ساتھ امن ممکن نہیں، یالون
9 جون 2015خبر رساں ادارے روئٹرز نے اسرائیلی وزیر دفاع موشے یالون کے حوالے سے بتایا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین مستحکم امن ڈیل کو حتمی شکل دیے جانے پر شکوک کا شکار ہیں۔
پیر کو تل ابیب کے نواح میں واقع ہرتزیلیا منعقدہ ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’میری تمام زندگی میں کوئی مستحکم معاہدہ ہوتا نظر نہیں آتا اور میں کچھ زیادہ عمر تک زندہ رہنے کا خواہمشند ہوں۔‘‘
وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے قریبی ساتھی یالون نے اس تنازعے کے لیے فلسطینیوں کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مذاکرات کے راستے بند کر دیے ہیں۔ یالون کے بقول فلسطینی اتھارٹی گزشتہ پندرہ برسوں سے مذاکرات کو ناکام بناتی آ رہی ہے۔
تاہم فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن نے یالون کے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ قیام امن کی راہ میں رکاوٹ کی ذمہ داری دراصل نیتن یاہو انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔
اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے مابین مذاکراتی عمل اپریل 2014ء میں ناکام ہو گیا تھا۔ فلسطینی اتھارٹی کے مطابق مذاکراتی عمل کی بحالی سے قبل اسرائیلی حکومت کو مقبوضہ علاقوں میں آباد کاری کا سلسلہ بند کرنا ہو گا۔
فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن سے وابستہ واصل ابو یوسف نے روئٹرز سے گفتگو میں کہا ہے کہ یہودی آباد کاری اور فلسطینی مہاجرین کے حقوق کو رد کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت نے سیاسی پیشرفت کا راستہ روک رکھا ہے۔
واصل ابو یوسف نے موجودہ غیر یقینی صورتحال کی ذمہ داری اسرائیلی حکومت پر عائد کرتے ہوئے مزید کہا کہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینوں کو رہا کر دینا چاہیے اور امن ڈیل کے لیے اسرائیل کو دیگر بنیادی شرائط کو قبول کرنا چاہیے۔
سترہ جون کو منعقد ہوئے اسرائیلی انتخابات سے قبل نیتن یاہو نے کہا تھا کہ اگر وہ دوبارہ منتخب کر لیے گئے تو آزاد فلسطینی ریاست وجود میں نہیں آئے گی۔ ان کے اس بیان پر عالمی رہنماؤں نے بھی انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
تاہم ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے فوری بعد ہی نیتن یاہو نے اپنے موقف میں لچک پیدا کر لی تھی۔ اسرائیلی وزیر اعظم کی طرف سے دو ریاستی حل کی شرط یہ ہے کہ ایک ایسی آزاد فلسطینی ریاست وجود میں آئے، جو غیر فوجی ہو اور وہ اسرائیل کو ایک یہودی ریاست کے طور پر تسلیم کرے۔
یہ امر اہم ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے ایک نشریاتی انٹرویو میں کہا تھا کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے موقف میں بہت زیادہ موڑ اور شرائط ہیں، اس لیے یہ حقیقی معلوم نہیں ہوتا کہ مستقل قریب میں ایسی تمام شرائط پوری کر دی جائیں، جن سے دو ریاستی حل کو حقیقی شکل دی جا سکے۔