مستقبل میں پاکستان کو پانی کی شدید کمی کا سامنا ہوگا
19 جون 2010واشنگٹن کے ووڈرو وِلسن انٹرنیشنل سینٹر فار سکالرز کے جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا پروگرام کے محقق مائیکل کوگلمین کے مطابق اب پاکستانی زراعت اور آبادی کا زیادہ تر انحصار صرف ایک دریا پر رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں زراعت کا نظام پانی کی قلت سے متاثر ہو رہا ہے اور رفتہ رفتہ اس کمی کے اثرات پاکستان میں خوراک کی صورتحال کو مزید خراب کریں گے۔ کوگلمین کا کہنا ہے کہ زراعت کو پہنچنے والے نقصان کے باعث پاکستان کی 180 ملین کی آبادی کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ کوگلمین کا کہنا ہے کہ پاکستان دستیاب پانی کا 90 سے 95 فیصد زرعی مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے۔
امریکی نائب وزیر برائے سفارت و بین الاقوامی تعلقات ماریہ اوتیرو نے خبررساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں کہا کہ دیگر ترقی پزیر ممالک دستیاب پانی کا 70 سے 75 فیصد زراعت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اوتیرو کے مطابق پاکستان اپنے میٹھے پانی کا صرف 40 فیصد واقعی استعمال کرتا ہے جبکہ زیادہ تر پانی متعدد وجوہات کی بنا پر ضائع ہو جاتا ہے۔ امریکی نائب وزیر اسلام آباد کے اپنے پہلے دورے پر تھیں۔ ان کا یہ دورہ پاک امریکہ سٹریٹیجک مذاکرات کے سلسلے میں واٹر ورکنگ گروپ پر بات چیت کے سلسلے میں تھا۔
مائیکل کوگلمین کا کہنا ہےکہ پاکستان میں تقریبا 55 ملین افراد کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے اور صرف کراچی شہر میں ہر سال 30 ہزار افراد کی موت کا سبب یہی غیر شفاف پانی ہے۔
پاکستان کی آبادی سب سے زیادہ انحصار کوہ ہمالیہ کے گلیشیرز سے نکلنے والے دریائے سندھ پر کرتی ہے۔ سائنسدانوں کا خیال کے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث اگلے چند برسوں میں دریائے سندھ کے حجم میں نمایاں کمی واقع ہو گی۔ دوسری جانب پاکستان میں دیگر دریا بھارت سے داخل ہوتے ہیں اور پاکستان بھارت پر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتا ہے۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : شادی خان سیف