افغانستان ميں شرعی نظام نافذ ہو گا يا امريکی طرز کی جمہوريت
12 ستمبر 2020يہ مذاکرات علامتی طور پر امريکا ميں ستمبر گيارہ سن 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں کے 19 برس مکمل ہونے کے ايک دن بعد شروع کيے گئے۔ امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ملک کی تاريخ کی طويل ترين جنگ کا خاتمہ اور تمام فوجيوں کا انخلاء چاہتے ہيں۔ نومبر ميں صدارتی انتخابات ہونے والے ہيں اور ٹرمپ کی کوشش ہے کہ ان معاملات کو جلد نمٹايا جائے۔ رواں سال فروری ميں امريکا اور طالبان کے مابين ڈيل طے پائی اور اسی ڈيل کا ايک حصہ کابل حکومت اور طالبان کے مابين براہ راست مذاکرات کا انعقاد تھا۔
ان مذاکرات کے آغاز سے قبل کئی ممالک اور قوتوں نے فريقين پر جنگ بندی اور خواتين کے حقوق کے تحفظ کو يقينی بنانے کے ليے زور ديا۔ صدر ٹرمپ نے يہ عنديہ بھی ديا تھا کہ وہ کابل حکومت کے ليے مالی امداد کو کسی ڈيل تک پہنچنے کے ليے استعمال کر سکتے ہيں۔
نائن الیون: کیا جرمنی افغانستان میں ناکام رہا؟
طالبان کے وفد کا دورہ پاکستان ’کامیابی کے امکانات روشن‘
يہ امر بھی اہم ہے کہ طالبان افغانستان کہ ايک اسلامی 'امارات‘ ميں بدلنا چاہتے ہيں جبکہ افغان صدر اشرف غنی کی خواہش ہے کہ مغربی حمايت يافتہ آئینی جمہوریہ کا نظام رائج رہے۔
حکومت، طالبان اور امريکی وزير خارجہ کے ابتدائی بيانات
قطر کے دارالحکومت دوحہ ميں کابل حکومت اور طالبان باغيوں کے درميان براہ راست مذاکرات آج ہفتہ بارہ ستمبر سے شروع ہو گئے ہيں۔ افتتاحی تقريب سے خطاب کرتے ہوئے امريکی وزير خارجہ مائيک پومپيو نے کہا کہ گرچہ متعدد چيلنجز موجود ہيں تاہم فريقين کو موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی تفصيلی امن معاہدے تک پہنچنا چاہيے۔ پومپيو نے کہا، ''آپ ملک ميں کس قسم کا سياسی نظام چاہتے ہيں يہ فيصلہ آپ ہی کا ہے مگر ہم يہ سمجھتے ہيں کہ تشدد کے سلسلے کو توڑنے کے ليے تمام افغان شہريوں کے حقوق کا تحفظ کرنا درست راستہ ہے۔‘‘
پومپيو نے مزيد کہا کہ مستقبل ميں افغانستان کو دی جانے والی مالی امداد کا دار و مدار دوحہ مذاکرات ميں کيے گئے فيصلوں پر ہو گا۔ بعد ازاں افغانستان کے ليے خصوصی امريکی مندوب زلمے خليل زاد نے رپورٹرز سے بات چيت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی روکنے کے علاوہ اقليتوں اور خواتين کے حقوق کا تحفظ بھی مالی امدادی کی وصولی کے ليے لازمی ہے۔
مذاکرات ميں افغان حکومت کے وفد کی قيادت سابق چيف ايگزيکيٹو اور افغان حکومت کی اعلیٰ مصالحتی کمیٹی کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کر رہے ہيں۔ اپنے ابتدائی بيان ميں انہوں نے جنگ بندی کا مطالبہ کيا۔ علاوہ ازيں عبداللہ عبداللہ نے کہا، ''اگر فريقين تمام نکتوں پر اتفاق نہ بھی کر پائے، تو بھی سمجھوتہ ضروری ہے۔ ميرا وفد دوحہ ميں ايک ايسے سياسی نظام کی نمائندگی کر رہا ہے، جسے مختلف ثقافتوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے متنوع عوام کی حمايت حاصل ہے۔‘‘
طالبان کے وفد کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے اپنے ابتدائی بيان ميں طالبان کا ديرينہ مطالبہ دہرايا کہ ملک ميں اسلامی نظام نافذ کيا جائے۔ ان کے بقول افغانستان ميں اسلامی نظام نافذ ہونا چاہيے جس ميں تمام قبائل اور نسلوں کے لوگ بلا امتياز اپنی زندگياں محبت اور بھائی چارے سے گزار سکيں۔
امن مذاکرات کا آغاز، بين الاقومی حلقوں ميں تعريف
يورپی يونين اور مغربی دفاعی اتحاد نيٹو نے دوحہ ميں کابل حکومت اور طالبان کے مابين مذاکرات کے آغاز کو سراہا ہے۔ يورپی يونين کے خارجہ امور کے سربراہ جوزف بوريل نے تمام فريقوں پر زور ديا کہ وہ اس موقع سے فائد اٹھاتے ہوئے ملک گير سطح پر اور فوری جنگ بندی کريں۔ نيٹو کی جانب سے کہا گيا ہے کہ امن عمل ميں پيش رفت اور حالات کو ديکھتے ہوئے افغانستان سے افواج کے انخلاء يا اس کی تعداد ميں رد و بدل پر بات چيت کی جا سکتی ہے۔ تاہم نيٹو نے خبردار بھی کيا کہ امن عمل کے باوجود اس وقت افغانستان ميں پر تشدد واقعات بہت زيادہ ہو رہے ہيں۔ سيکرٹری جنرل ژينس اشٹولٹن برگ نے ايک ٹوئيٹ ميں کہا کہ اس بات کو يقينی بنايا جائے کہ افغانستان دوبارہ دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہ بنے۔
سياسی مبصرين نے کہا ہے کہ ان مذاکرات ميں کسی سمجھوتے تک پہنچنا ايک پيچيدہ معاملہ ہے اور مطلوبہ مقاصد کے حصول ميں کافی وقت لگ سکتا ہے۔
ع س / ا ب ا )روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)